اتوار، 22 دسمبر، 2024

(دوبیٹا ایک بیٹی میں مال کیسے تقسیم کریں؟)

(دوبیٹا ایک بیٹی میں مال کیسے تقسیم کریں؟)

  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید کا انتقال ہوگیا ہے اس کا ایک مکان ہے، مرحوم کے تین بیٹے ہیں اور ایک بیٹی ہے جبکہ بڑے بیٹے کا انتقال مرحوم زید سے پہلے ہی ہوچکا ہے، لہٰذا زید کی جائیداد میں اس کے انتقال شدہ بڑے بیٹے کا حصہ بنے گا یا نہیں، یاد رہے کہ اس وقت زید کے دو بیٹے ہیں اور ایک بیٹی ہے، اب اس صورت میں مرحوم زید کی جائیداد یعنی مکان سے کس کو کتنا حصہ ملے گا؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت کریں۔(المستفتی:۔شیخ جمیل باشا اکایہ پلی رویندر نگر اندھیرا پردیش)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
   صُورتِ مسئولہ میں برتقدیرِ صدق سائل وانحصار ورثاء در مذکورین بعدِ اُمورِ ثلاثہ متقدمہ علی الارث(یعنی کفن دفن کے تمام اخراجات اور اگر مرحوم کے ذمے قرض ہو تو اس کی ادائیگی اور غیرِ وارث کے لئے وصیت کی ہو تو تہائی ۱/۳ مال سے اسے پورا کرنے کے بعد) مرحوم کی مکمل جائیداد دو بیٹوں اور ایک بیٹی کے درمیان پانچ حصوں پر تقسیم ہوگی، جس میں سے دو دو حصے ہر ایک بیٹے کو ملیں گے اور ایک حصہ بیٹی کو ملے گا، کیونکہ بیٹے کا حصہ بیٹی کی بنسبت دُگنا ہوتا ہے۔
  چنانچہ قرآن کریم میں ہے:یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ۔(النساء:۱۱/۴)ترجمہ کنز الایمان:اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر۔
  اور زید کا جو بیٹا اس کی حیات میں انتقال کرگیا ہے اس کا مرحوم کی وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہے، کیونکہ وراثت کا مستحق ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ مُورِث کی موت کے وقت وارِث زندہ ہو۔چنانچہ علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی۱۲۵۲ھ لکھتے ہیں:وشروطہ ثلاثۃ۔۔۔وجود وارثہ عند موتہ حیاً حقیقۃ او تقدیراً کالحمل۔(رد المحتار،کتاب الفرائض،ص۴۲۰۰)یعنی،وراثت کی تین شرطیں ہیں ایک شرط یہ ہے کہ مُورِث کی موت کے وقت وارث زندہ ہو۔واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد اسامہ قادری

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only