(ماں، باپ، ایک بیٹا، ایک بہن، دادی، اور بیوی میں وراثت کیسے تقسیم کی جائے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید کا انتقال ہوا، اس نے وراثت میں 25 لاکھ روپے چھوڑے ہیں اور ورثاء میں ماں، باپ، ایک بیٹا، ایک بہن، دادی، اور بیوی کو چھوڑا ہے، لہٰذا میت کا مال متروک مذکور ورثاء میں عند الشرع کیسے تقسیم ہوگا؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔
المستفتیہ:۔کنیز فاطمہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
صُورتِ مسئولہ میں برتقدیرِ صدق سائلہ وانحصارِ ورثاء در مذکورین بعدِ اُمورِ ثلاثہ متقدّمہ علی الارث(یعنی،کفن دفن کے تمام اخراجات اور اگر مرحوم کے ذمے قرض ہو تو اس کی ادائیگی اور غیرِ وارث کیلئے وصیت کی ہو، تو تہائی ۱/۳ مال سے اُسے پورا کرنے کے بعد) مرحوم زید کی مکمل جائیداد چوبیس حصوں پر تقسیم ہوگی، جس میں سے مرحوم کی بیوہ کو تین حصے ملیں گے، کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں بیوہ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ۔(النساء:۱۲/۴) ترجمہ کنز الایمان:پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں۔
اور والدین میں سے ہر ایک کو چار چار حصے ملیں گے، کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں ماں باپ میں سے ہر ایک کیلئے چھٹا حصہ ہوتا ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں ہے:وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ۔(النساء:۱۱/۴)ترجمہ کنز الایمان:اور میت کے ماں باپ کو ہر ایک کو اس کے ترکہ سے چھٹا اگر میت کے اولاد ہو۔
اور بقایا تیرہ حصے میت کے بیٹے کو بطورِ عَصبہ ملیں گے، کیونکہ حدیث شریف میں ہے:أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ۔(صحیح البخاری،کتاب الفرائض،باب میراث الولد من ابیہ وامہ،۹۹۷/۲،مطبوعۃ:قدیمی کتب خانہ،کراچی)یعنی،فرائض ذوی الفروض کو دو، اور جو بچ جائے وہ قریب ترین مرد کے لئے ہے۔
اس حدیث کے تحت ملّا علی قاری حنفی متوفی۱۰۱۴ھ لکھتے ہیں:قال النووی:قد اجمعوا علی ان ما بقی بعد الفرائض فھو للعصبات یقدم الاقرب فالاقرب(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الفرائض والوصایا،الفصل الاوّل،۲۰۹/۶،مطبوعۃ:دار الکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ۱۴۲۲ھ۔۲۰۰۱م)یعنی،امام نووی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ فقہائے کرام کا اس پر اجماع ہے کہ جو اصحابِ فرائض کو دینے کے بعد باقی بچے تو وہ عصبات کے لئے ہے، جو سب سے زیادہ قریبی ہے اس کو مقدم کیا جائے گا پھر اس کے بعد والے کو۔
اور والد کی موجودگی کے سبب مرحوم کی دادی اپنے پوتے کی وراثت سے محروم رہے گی۔
چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے:ویسقط جمیع الجدات بالام الابویات والامیات وتسقط الابویات بالاب کالجد مع الاب۔(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الفرائض،الباب الرابع فی الحجب،۴۵۳/۶،مطبوعۃ:مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)یعنی،سب جدات خواہ ماں کی طرف سے ہوں یا باپ کی طرف سے، ماں کے ہوتے ہوئے ساقط ہوجاتی ہیں، اور باپ کے ہوتے ہوئے جو جدہ باپ کی طرف سے ہوتی ہے، وہ ساقط ہوجاتی ہے، جیسے باپ کے ہوتے ہوئے دادا ساقط ہوجاتا ہے۔
اور بہارِ شریعت میں ہے:وہ دادیاں جو باپ کی طرف سے ہوں وہ باپ کے ہوتے ہوئے بھی محروم ہو جائیں گی۔(بہارِ شریعت،حصہ بستم،۱۱۲۹/۳،مطبوعۃ:مکتبۃ المدینہ،کراتشی،طباعت:۱۴۳۹ھ۔۲۰۱۷ء)
یونہی مرحوم کی بہن بھی اپنے بھائی کی میراث سے محروم رہے گی، کیونکہ بھائی کا بیٹا موجود ہے۔چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے:ویسقط الاخوۃ والاخوات بالابن۔(الفتاوی الھندیۃ،کتاب الفرائض،الباب الثانی فی ذوی الفروض،۴۵۰/۶،مطبوعۃ:مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)یعنی،بھائی بہن بیٹے کے سبب محروم رہتے ہیں۔
اور بہارِ شریعت میں ہے:حقیقی بھائی بہن ہوں یا باپ شریک سب کے سب بیٹےکے ہوتے ہوئے بالاتفاق محروم رہتے ہیں۔(بہارِ شریعت،حصہ بستم،۱۱۲۶/۳،مطبوعۃ:مکتبۃ المدینہ،کراتشی،طباعت:۱۴۳۹ھ۔۲۰۱۷ء)
لہٰذا دلائل کی رُو سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ مرحوم کی مکمل جائیداد وراثت پر مقدّم اُمور کے بعد چوبیس حصوں پر تقسیم ہوگی، جس میں سے بیوہ کو تین حصے ملیں گے جبکہ والدین میں سے ہر ایک کو چار چار حصے ملیں گے، اور باقی تیرہ حصے مرحوم کے بیٹے کو ملیں گے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مرحوم کی جائیداد میں اُس کی بہن اور دادی کا کوئی حق نہیں ہے۔پس اگر ورثاء میں پچیس لاکھ روپے تقسیم کرنے ہیں، تو اس صُورت میں بیوہ کو تین لاکھ بارہ ہزار پانچ سو(312500) روپے ملیں گے،جبکہ والدین میں سے ہر ایک کو چار لاکھ سولہ ہزار چھ سو چھیاسٹھ اعشاریہ چھیاسٹھ(416666.66) روپے ملیں گے اور بقایا تیرہ لاکھ چون ہزار ایک سو چھیاسٹھ اعشاریہ اڑسٹھ(1354166.68) روپے مرحوم کے بیٹے کو ملیں گے۔واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد اُسامہ قادری
ایک تبصرہ شائع کریں