کیافرماتےہیں علماۓکرام ومفتیان عظام اس مسئلہ میں کہ زید میت اس نے باپ دادا، بیٹی چھوڑا تومذکورہ وارثین میں ترکہ کیسے تقسیم ہوگا ؟
المستفتی
محمد وسیم فیضی
وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ
الجواببعون الملک الوھاب صورت مسئولہ میں برصدق مستفتی وانحصارورثہ فی المذکورین بعد تقدیم ماتقدم علی الارث مرحوم کے کل مال متروکہ چھ ٦ حصوں پرتقسیم ہوگا
جس میں سے نصف (آدھا ١/٢) بیٹی کو ملےگا
ارشادباری تعالی ہے ،، واِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُؕ-
اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کا آدھا
(پارہ ٤ سورہ النساء آیت ١١)
اور باپ کو چھٹواں حصہ بطور صاحب فرض کے ملے گا یعنی ایک حصہ
اور باقی بچے دو حصے یہ بھی باپ کو بطور عصبہ کے ملے گا
بہارشریعت جلدسوم حصہ بستم صفحہ ١١١٥ میں ہے ،،
اگر باپ کے ساتھ میت کی بیٹی یا پوتی (نیچے تک) ہے تو باپ کو چھٹا حصہ بطور صاحب فرض کے ملے گا اور اگرتقسیم کے بعد بچ جائے گاتو وہ باپ کوبطور عصبہ کے ملے گا
(عالمگیری ج ۶ ص ۴۴۸، خزانۃ المفتین )
اور باپ کے ہوتے ہوۓ دادا محروم رہےگا کیونکہ رشتہ داری اصل باپ سے ہے
(سراجی صفحہ ١١)
دادا محروم ہوگا
وھوسبحانہ تعالی اعلم بالصواب
کتبه
العبد ابوالفیضان محمّد عتیق اللہ صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی عفی عنہ
دارالعلوم اھلسنت محی الاسلام
بتھریاکلاں ڈومریا گنج سدھارتھنگر یوپی
١٠ شعبان المعظم ١٤٤٣ ھ
١٤ مارچ ٢٠٢٢ء
ایک تبصرہ شائع کریں