منگل، 31 دسمبر، 2024

(بیوی، شوہر کو بغیر بتائے جیب سے روپیہ نکال لے تو؟)

 (بیوی، شوہر کو بغیر بتائے جیب سے روپیہ نکال لے تو؟)

اَلسَـلامُ عَلَيْـڪُم وَرَحْمَـةُ الــلّٰــهِ وَبَـــرْڪَاتُـهُ‎
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ کیا بیوی شوہر کے جیب سے اسے بتائے بغیر پیسے لے سکتی ہے یا نہیں ؟اور اس کی وجہ سے وہ گنہ گار ہوگی یانہیں ؟بحوالہ جواب عنایت فرمائیں  عین نوازش ہوگی     المستفتیہ: ۔ دختر محمد رفیق پشوپتی وہار بریلی شریف
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
   استاذالاساتذہ علامۃ العصر مفتی عبدالمصطفی اعظمی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں ،، کسی کی کوئی چیز زبردستی لے لینا یا پیٹھ پیچھے اس کی اجازت کے بغیر لے لینا بہت بڑا گناہ ہے ۔ بعض عورتیں اپنے شوہر یا اور کسی رشتہ دار کی چیز بلا اجازت لے لیتی ہیں ۔ اسی طرح مرد اپنے دوستوں اور ساتھیوں یا اپنی عورتوں کی چیزیں بلا اجازت لے لیا کرتے ہیں ۔ یاد رکھو کہ یہ جائز و درست نہیں بلکہ گناہ ہے ۔ اگر کسی کی کوئی چیز بلا اجازت لے لی ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر وہ چیز ابھی موجود ہو تو بعینہ اس کو واپس کر دینا ضروری ہے اور اگر خرچ یا ہلاک ہوگئی تو مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ ایسی چیز ہے کہ اس کے مثل بازار میں مل سکتی ہے تو جیسی چیز لی ہے ویسی ہی خرید کر دینا واجب ہے ۔ اور اگر کوئی ایسی چیز لےکر ضائع کردی ہے کہ اس کی مثل ملنا مشکل ہے تو اس کی قیمت دینا واجب ہے ۔ یا یہ کہ جس کی چیز تھی اس سے معاف کرا لے اور وہ معاف کردے تب چھٹکارا مل سکتا ہے۔
(جنتی زیور صفحہ۳۰۳)
  ہاں ایک صورت ہے کہ بغیر بتائے بیوی اپنے شوہر کے جیب سے پیسے لے سکتی ہے۔ اور اس کی وجہ سے بیوی گنہگار بھی نہیں ہوگی ۔ جب کہ بیوی کو نفقہ نہ دیتا ہو یا نفقہ دیتا ہو مگر کم دیتا ہو  جو اس کو اور اس کے بچوں کے لئے کم پڑتا ہو ۔
  حدیث شریف میں ہے :صحیحین میں  ام المومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے مروی، کہ ہند بنت عتبہ نے عرض کی ، یا رسول اللہ!  ( صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ) ابوسفیان (میرے شوہر) بخیل ہیں  ، وہ مجھے اتنا نفقہ نہیں  دیتے جو مجھے اور میری اولاد کو کافی ہو مگر اُس صورت میں  کہ اُن کی  بغیر اطلاع میں  کچھ لے لوں  (تو آیا اس طرح لینا جائز ہے؟) فرمایا: کہ ’’اُس کے مال میں  سے اتنا تو لے سکتی ہے جو تجھے اور تیرے بچوں  کو دستور کے موافق خرچ کے لیے کافی ہو۔‘‘ (صحیح البخاري ‘‘ کتاب النفقات، باب اذالم ینفق الرجل ۔ إلخ، الحدیث: ۵۳۴۶؍، جلدسوم ۳ ، صفحہ  ۵۱۶؍بہار شریعت جلد دوم حصہ ہشتم صفحہ ۲۶۱؍: نفقہ کا بیان؍المکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی)
  لیکن بیوی کو جب نان ونفقہ مل رہا ہو تو بلا اجازت جیب سے پیسے نکالنا درست وجائز نہیں ۔ بلکہ گناہ ہے  اور یہ ایک عیب ہے ۔  اگر ضرورت شدیدہ  ہو تو نکال لے مگر پھر بتا دے ۔ ہو سکتا ہے کہ شوہر اپنے پاس کسی کی امانت رکھا ہو اور بلا اجازت اس کے جیب سے بیوی نکال لے اور اس کو خبر نہ ہو ۔ تو بیوی کی اس حرکت سے شوہر کو امانتدار کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑ سکتی ہے ۔ جس سے شوہر کے عزت و وقار مجروح ہونگے ۔
  لہٰذا :- ایک وفا دار بیوی کبھی نہ چاہے گی کہ اس کا شوہر کسی کے سامنے رسوا ہو ۔ یا شرمندہ ہو ۔ بیوی اگر نفقہ یعنی خرچ برابر پاتی ہو تو چوری کرنا اور بلا اجازت جیب سے پیسے نکالنا بہرحال جائز نہیں اور گناہ بھی ہوگا ۔ اس طرح کی عادتیں عورتوں میں ہونا معیوب ہے ۔ اس حرکت سے شوہر کا بیوی کے اوپر سے اعتبار ختم ہو جائے گا ۔ جو ایک بہت بری بلا میں گرفتار ہونے کا اندیشہ ہوگا دونوں کی زندگی میں درار ہو جائے گا ۔ جو کبھی ختم نہ ہونے والا ہوگا ۔ اس سے بچنا بہتر ہے ۔ جو بیوی ان سب چیزوں سے بچتی ہے وہ ہمیشہ اپنے شوہر کی نظر میں محبوب ہوتی ہے ۔ اور اس کی زندگی بہت خوشگوار گزرتی ہے ۔ عورتوں کوچاہئے کی اپنے شوہروں کی نظروں میں ہمیشہ محبوب ہی رہے ۔
وھو سبحانہ تعالٰی اعلم بالصواب
کتبہ
العبد ابوالفیضان محمد عتیق الله صدیقی فیضی یارعلوی ارشدی عفی عنہ

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only