اتوار، 22 دسمبر، 2024

{جومال غصب کر کے انتقال کرجا ئے اس کے لئے کیا حکم ہے؟}

 {جومال غصب کر کے انتقال کرجا ئے اس کے لئے کیا حکم ہے؟}

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیںعلمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید کے والد کا انتقال ہوگیا جنازہ تیارتھا امام صاحب مصلے پے حاضرہو ئے اب زید صف سے باہر نکلا اور سب کو آگاہ کیا کی میرے باپ سے اگر کسی کو کچھ تکلیف ہو ئی ہویا کسی کا مال لے لیا  یا کسی کا قرض باقی ہو تو معاف کردو لیکن اسی صف میں کچھ ایسے حضراتھے جو نماز جنازہ کے بعد کہنے لگے کہ مرنے والا یعنی زید کاباپ میرا مال چھیناتھا اوراسکا علم زید کو بھی تھا تو اُس وقت زید نے میرا مال واپس کیوں نہیں کیا؟ اب جب کہ انتقال ہوگیا تو آج اسے یاد آیا ہے؟ ایسے وقت کون کس سے مانگنے جاتا ہے اور کون دیتا کس کو دیتا ہے؟ اور کون لیتا ہے؟ میں نہیں معاف کرونگا ،لیکن کچھ حضرات یہ کہتے ہیں کہ زید اپنے باپ کی طرف سے معافی مانگ لی ہے لہذا اس صورت میں زید کے والد کا گناہ معاف ہوگیا چاہے کوئی معاف کرے یانہ کرے اگر معاف نہیں کیا تو خود گنہگار ہو جاؤگے تو ایسی صورت میں کیا زید کے والدکی خطا معاف ہوجائے گی ؟قرآن و حدیث کے حوالے سے جواب عنایت فرمایے مہربانی ہوگی۔
المستفتی:۔نظام الدین

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب

   جب زید کے والد زندہ تھے اسی وقت قرض خواہوںکو مطالبہ کرنا چا ہئے تھا یا پھر زید ہی سے طلب کرتے جب کہ زید کو بھی معلوم تھا اب جبکہ زید کے والد کا انتقال ہو گیا تو معاف کردے یا پھر براہ راست زید سے طلب کرے لوگوں میں ظاہر کرنے سے کیا فا ئدہ حاصل ہوگا حدیث شریف میں ہے ’’ عَنِ بْنِ عُمَرَ  قَا لَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ ﷺ اذْکُرُو امَحَا سِنَ مَو تَا کُمْ وَکُفُّو عَنْ مَسَا وِیْھِمْ ‘‘حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہما سے روا یت ہے کہ حضور رحمت عالم  ﷺنے فر ما یا کہ اپنے مردوں کی نیکیوںکا چر چا کرو اور ان کی برا ئیوں سے چشم پوشی کرو ۔( ابو داؤد،ترمذی جلد اول ابواب الجنا ئز صفحہ۱۲۱؍ مشکوٰۃ با ب مشی با لجنا زۃ والصلوۃ علیہا الفصل الثانی صفحہ۱۴۷)

  اور لوگوں کا یہ کہنا کہ زید نے معاف کروالیا ہے اب معاف ہو گیا نہیں معاف کروگے تو گنگار ہوگے یہ سراسر جہالت ہے مدعی جب تک معاف نہیں کرے گا معاف نہیں ہوگا اور زید کا والد عذاب الٰہی میں گرفتار رہے گا کیونکہ یہ حق العبد ہے اور حق العبد اس وقت معاف ہوگا جب بندہ صدق دل سے معاف فرما دے۔

   حدیث شریف میں ہے’’عن ابی ہریرۃ ان سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال أتدرون ما المفلس؟قالوا المفلس فینا من لا درھم لہ ولا متاع. فقال إن المفلس من أمتی من یأتی یوم القیامۃ بصلاۃ وصیام وزکاۃ ویأتی وقد شتم ہذا وقذف ہذا. وأکل مال ہذا. وسفک دم ہذا وضرب ہذا فیعطی ہذا من حسناتہ وہذا من حسناتہ فإن فنیت حسناتہ قبل أن یقضی ما علیہ أخذ من خطایاہم فطرحت علیہ ثم طرح فی النار۔رواہ مسلم ‘‘ حضرت بو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ نے صحابۂ کرام سے دریا فت فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ مفلس اور گنہگار کون ہے ؟صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہم میں مفلس وہ شخص ہے جس کے پاس نہ پیسے ہوں اور نہ سامان ،حضور  ﷺ نے فرمایا میری امت میں دراصل مفلس وہ شخص ہے کہ جو قیامت کے دن نماز ،روزہ اور زکوۃ وغیرہ لیکر اس حال میں آ ئے گا کہ اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ،کسی پر تہمت لگا ئی ہو گی ،کسی کا مال کھا لیا ہو گا ،کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہو گا ،تو اب ان کو راضی کر نے کے لئے اس شخص کی نیکیاں ان مظلوموںکے درمیان تقسیم کی جائے گی اگر اس کی نیکیاں ختم ہو جا نے کے بعد بھی لوگوں کے حقوق اس پر با قی رہ جا ئیں گے تو اب حق داروں کے گناہ لاد دئے جا ئیں گے یہاں تک کہ اسے دوزخ میں پھینک دیاجا ئے گا ۔(کتاب: امر بالمعروف کا بیان باب: حقیقی مفلس کون ہے حدیث نمبر ۵۰۱۶)

  اگر مدعی سچا ہے یعنی زید کے والد نے سچ میں مال غصب کیا ہے تو زید کو چاہئے کہ اپنے والد کا قرض ادا کردے بعدہٗ وہ میراث کا مال لے کیوں نکہ جہاں بھی میراث تقسیم کرنے کا ذکر ہے پہلے دین اور وصیت پورا کرنے کے کا حکم ہے ،لہذا مال تقسیم کرنے سے پہلے قرض خواہوں کا قرض دے دے۔

  حدیث شریف میں ہے’’ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:  نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَۃٌ بِدَیْنِہِ حَتَّی یُقْضَی عَنْہ‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مؤمن کی جان اس کے ذمے قرض کے ساتھ معلق رہتی ہے حتی کی اسے ادا کر دیا جائے ۔(ترمذی شریف حدیث نمبر ۱۰۷۸)

یہاں تک کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مقروض شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے تھے جیساکہ بخاری شریف باب الکفالہ حدیث نمبر۲۲۸۹؍ سے ثابت ہے کہ ایک مقروض شخص کا جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا تو حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں اس کا قرض میں ادا کردوں گا۔

  اس حدیث مبارکہ کو بار بار پڑھیں اور غور کریں کہ جب قرض لینے والے کے متعلق یہ وعیدیں ہیں پھر جوکسی کا مال غصب کیا ہواس کا کیا حشر ہوگا ۔نعوذ باللہ

  اور اگر زید کے پاس اتنا رقم نہیں کہ قرض پورا ادا کرپا ئے تو پھر کسی سے قرض لیکر دے دے یا مدعی سے معاف کروالے ،اللہ تعالیٰ بہتر اجر دینے والا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد  قادری واحدی



ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only