(کیا بیٹی کی موجودگی میں نواسی کو وراثت ملےگا؟)
الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کی تین بیٹیاں تھیں لڑکا کوئی نہیں تھا ایک بیٹی کا انتقال زید کی موجودگی میں ہی ہوگیا اور زید کی بیوی کا بھی زید کی موجودگی میں انتقال ہوگیا اب زید کی دو بیٹیاں اور ایک نواسی ہے اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے وراثت کو کیسے تقسیم کیا جائے کس کو کتنا ملے گا کیا نواسی کا بھی وراثت میں حق ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل: محمد تاج رضا
باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب: برتقدیر صدق سائل وانحصار ورثاء در مذکورین بعد اُمور ثلاثہ متقدمہ علی الارث (یعنی کفن دفن کے تمام اخراجات نکالنے، اگر مرحوم کے ذمہ قرض ہو تو اس کی ادائیگی، اور غیر وارث کے لیے وصیت کی ہو تو تہائی مال سے اسے پورا کرنے کے بعد) مرحوم کا مکمل ترکہ دو حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے ہر زندہ بیٹی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔ اور چونکہ زید کی ایک بیٹی اور بیوی اس کی زندگی میں وفات پا چکی تھیں، اس لیے ان کا وارثت میں حصہ نہیں ہوگا کیونکہ وراثت پانے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ وارث مورث کی موت کے وقت زندہ ہو۔ اور نواسی کو بھی کچھ نہیں ملے گا کیونکہ وہ ذوی الارحام میں شامل ہے اور ذوی الارحام صرف اس وقت وارث ہوتے ہیں جب اصحاب فرائض میں سے وہ نہ ہوں جن پر مال دوبارہ رد کیا جا سکے، جیسے یہاں بیٹیاں موجود ہیں۔
چنانچہ علامہ سراج الدین محمد بن عبد الرشید سجاوندی حنفی متوفی ۶۰۰ھ لکھتے ہیں: فی المسئلة جنس واحد ممن یرد علیه عند عدم من لا یرد علیه فاجعل المسئلة من رؤوسهم کما لو ترک بنتین أو أختین أو جدّتین فاجعل المسئلة من اثنین۔ (السراجیۃ، ص ۵۸)
یعنی، اگر مسئلہ میں صرف وہی وارث ہوں جن پر مال رد کیا جاتا ہے، اور ایسے وارث موجود نہ ہوں جن پر ردّ نہیں ہوتا (یعنی زوجین)، تو اس صورت میں مسئلہ اُن کے عددِ رؤوس کے مطابق بنایا جائے گا، جیسے اگر میت نے صرف دو بیٹیاں، یا دو بہنیں، یا دو دادیوں کو چھوڑا ہو، تو مسئلہ دو سے بنایا جائے گا۔
اور علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ۱۲۵۲ھ مندرجہ بالا شرط کو ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل۔ (رد المحتار، ۶/۷۵۸)
یعنی، مورث کی موت کے وقت اس کا وارث زندہ ہو، خواہ حقیقتاً (جیسے موجود شخص) یا تقدیراً جیسے حمل (کی صورت میں)۔
اور علامہ نظام الدین حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے: وإنما يرث ذوو الأرحام إذا لم يكن أحد من أصحاب الفرائض ممن يرد عليه ولم يكن عصبة۔ (الفتاوی الھندیۃ، ۶/۴۵۹)
یعنی، ذوی الارحام اُس وقت وارث ہوتے ہیں جب اصحاب فرائض میں سے کوئی ایسا نہ ہو جس پر مال دوبارہ رد کیا جا سکے، اور کوئی عصبہ بھی نہ ہو۔
والله تعالیٰ أعلم بالصواب
کتبہ
محمد اُسامہ قادری
پاکستان،کراچی
ہفتہ،۱۰/ذو الحجہ، ۱۴۴۶ھ۔۶/جون، ۲۰۲۵م
ایک تبصرہ شائع کریں