جمعرات، 21 اگست، 2025

(امۃ الغوث نام رکھنا کیساہے؟)

 

  (امۃ الغوث نام رکھنا  کیساہے؟)


الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ امۃ الغوث ، یہ نام رکھنا کیسا ہے؟ اور مطلب بھی بیان فرما دیں اور اعراب لگادیں تاکہ درست ادائیگی ہو نام لینے میں۔

(سائل: از انڈیا)

باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب: لڑکی کا نام ’’اَمَةُ الغوث‘‘ رکھنا جائز ہے، اور اس کا معنی ہے ’’غوث کی باندی‘‘، اس لیے کہ ’’اَمَةٌ‘‘، ’’عَبْدٌ‘‘ کی مؤنّث ہے، اور ’’غوث‘‘ بزرگی کے ایک خاص مرتبے کا نام ہے۔ ’’غوث‘‘ وہ عظیم المرتبت بزرگ ہوتا ہے جو ہر زمانے میں ایک ہی ہوتا ہے، اور اس کا لغوی معنی فریاد رس یعنی فریاد کو پہنچنے والا ہے، جیسا کہ ’’فیروز اللغات‘‘ میں مذکور ہے۔ اور ہمارے دور میں جب مسلمان ’’غوث‘‘ کہتے ہیں تو عموماً اس سے حضور سیّدنا غوث الاعظم پیرانِ پیر شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہی مراد ہوتے ہیں۔ لہٰذا جس طرح انبیاء، صحابہ اور اولیاء کے ناموں کی طرف ’’عبد‘‘ کو اِضافت (نسبت) کرکے نام رکھنا درست ہے، اسی طرح ’’اَمَةٌ‘‘ کو بھی ان بزرگوں کی طرف منسوب کرکے نام رکھا جا سکتا ہے۔

   چنانچہ امام اہلسنّت امام احمد رضا خان حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ لکھتے ہیں: غلام علی، غلام حسین، غلام غوث، غلام جیلانی اور ان کے امثال تمام نام جن میں اسمائے محبانِ خدا کی طرف اضافت لفظ غلام ہوں سب کاجواز بھی قطعاً بدیہی (یعنی بہت واضح) ہے۔ فقیر غفر اللہ تعالیٰ لہُ نے اپنے فتاوٰی میں ان ناموں پر ایک فتویٰ قدرے مفصل لکھا اور قرآن وحدیث اور خود پیشوایانِ وہابیہ کے اقوال سے ان کا جواز ثابت کیا۔ (فتاویٰ رضویہ، ۲۴/۶۹۱)

   اور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی ۱۳۶۷ھ لکھتے ہیں: غلام محمد، غلام صدیق، غلام فاروق، غلام علی، غلام حسن، غلام حسین وغیرہ اسما جن میں انبیاء و صحابہ و اولیا کے ناموں کی طرف غلام کو اضافت کرکے نام رکھا جائے یہ جائز ہے اس کے عدمِ جواز کی کوئی وجہ نہیں۔ بعض وہابیہ کا ان ناموں کو ناجائز بلکہ شرک بتانا ان کی بدباطنی کی دلیل ہے۔ ایسا بھی سنا گیا ہے کہ بعض وہابیوں نے غلام علی نام کو بدل کر غلام اﷲ نام رکھا ،یہ ان کی جہالت ہے کہ جائز نام کو بدل کر ناجائز نام رکھا، غلام کی اضافت اﷲ تعالیٰ کی طرف کرنا اور کسی کو غلام اللہ کہنا ناجائز ہے کیونکہ غلام کے حقیقی معنی پسر اور لڑکا ہیں، اﷲ (عزوجل) اس سے پاک ہے کہ اس کے لیے کوئی لڑکا ہو۔ علامہ عبدالغنی نا بلسی قدس سرہ نے حدیقہ ندیہ (الحدیقۃ الندیۃ، ۴/۱۶۵) میں فرمایا: یقال عبدُ الله واَمَةُ الله ولا یقال غلام الله وجَارِیَةُ الله. (یعنی، اللہ تعالیٰ کا بندہ، اللہ تعالیٰ کی بندی کہا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کا غلام یا اللہ تعالیٰ کی لونڈی نہیں کہا جائے گا) (بہار شریعت، ۳/۱۶/۶۰۴) 

   اور جب ’’اَمَةٌ‘‘ کی نسبت بندے کی طرف کی جائے تو اس سے مراد باندی ہوتی ہے۔ اس پر قرآنِ کریم کی آیت شاہد ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىٕكُمْ  (النور، ۲۴/۳۲)

ترجمہ، اور نکاح کردو اپنوں میں اُن کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق غلاموں اور باندیوں کا۔

   اس اعتبار سے ’’اَمَةٌ الغوث‘‘ کا مطلب ’’غوث‘‘ کی ’’باندی‘‘ ہونا بالکل واضح ہے ، جو دراصل وابستگی و تعلق کے مفہوم میں ہے، لہٰذا اس نام کے رکھنے میں کوئی قباحت نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی شرک کا پہلو ہے۔والله تعالیٰ أعلم بالصواب

کتبہ:

محمد اُسامہ قادری

پاکستان، کراچی

منگل،۲۴/صفر، ۱۴۴۷ھ۔۱۹/اگست، ۲۰۲۵م

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only