ہفتہ، 9 نومبر، 2024

(بلا اضافت طلاق طلاق کہاتوکیاحکم ہے؟)

(بلا اضافت طلاق طلاق کہاتوکیاحکم ہے؟)

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ "زید کسی بات پر اپنے سسر سے لڑ پڑا اور اسی دوران اپنی بیوی کو تین بار "طلاق طلاق طلاق" بول دیا زید کا کہنا ہے کہ "جب میں نے مذکورہ الفاظ بولے تو میری بیوی موجود نہ تھی اور نہ میری نیت طلاق کی تھی اور نہ دیتا ہوں کہا" اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا صورت مذکورہ میں زید کی بیوی پر طلاق واقع ہوگئ یا نہیں عندالشرع اس کا کیا حکم ہے؟جواب عنایت فرمائیں
المستفتی: حافظ عبدالرحمن اشرفی داہود گجرات 

وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون ملک الوھاب 

سب سے پہلے یہ مسئلہ واضح رہے کہ طلاق واقع ہونے کے لیے بیوی کی جانب طلاق کی اضافت ضروری ہے خواہ اضافت لفظی ہو یا معنوی اگر طلاق میں بیوی کی جانب اضافت نہ ہو تو طلاق واقع نہیں ہوتی جب تک کہ مطالبئہ طلاق یا مذاکرہء طلاق نہ ہو۔لھٰذا بر صدق مستفتی اگر واقعی شوہر ( زید ) نے جھگڑے کے دوران اپنی بیوی کی غیر موجودگی میں اس کو تین مرتبہ"طلاق طلاق طلاق" بول دیا تھا۔(جیساکہ استفتا میں مذکور ہے کہ اس کی بیوی وہاں موجود نہیں تھی۔)اگر مذکورہ الفاظ سے اس کی نیت اپنی بیوی کو طلاق دینے کی نہ تھی تو اس صورت میں اس سے قسم لی جائےگی اگر وہ قسم کھالے کہ ان الفاظ سے میری نیت طلاق کی نہیں تھی تو حکم ہوگا کہ اس کی بیوی پر طلاق واقع نہ ہوئی,اور اگر واقعی میں طلاق کی نیت تھی اور جھوٹی قسم کھالی تو اب وبال اس پر ہے۔ اور اگر دل میں بیوی کی طرف طلاق کی اضافت تھی تو فوراً اس کی بیوی حرمت مغلظہ سے شوہر پر ہمیشہ کے لیے حرام ہوگئ کیوں کہ صرف لفظ طلاق ان الفاظ میں سے ہے جس میں بیوی کی جانب اضافت کا پایا جانا ضروری ہے۔اس لیے اگر صراحتاً اضافت والے الفاظ استعمال کیے جائیں یا دل میں نیت کرتے ہوۓ بولے  جائیں توہی طلاق واقع ہوگی ورنہ نہیں جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:لايَقَعُ فِي جِنْسِ الْإِضَافَةِ إذَا لَمْ يَنْوِ لِعَدَمِ الْإِضَافَةِ إلَيْهَا.یعنی: اضافت والے امور میں جب نیت نہ ہو تو بیوی کی طرف اضافت نہ ہونے پر  طلاق نہ ہوگی

اسی میں ہے:"سَكْرَانُ هَرَبَتْ مِنْهُ امْرَأَتُهُ فَتَبِعَهَا وَلَمْ يَظْفَرْ بِهَا فَقَالَ بِالْفَارِسِيَّةِ بَسّه طَلَاق إنْ قَالَ عَنَيْت امْرَأَتِي يَقَعُ وَإِنْ لَمْ يَقُلْ شَيْئًا لَا يَقَعُ"یعنی: ایک نشہ والے سے اس کی بیوی بھاگ گئی، وہ پیچھے بھاگا اور کامیاب نہ ہونے پر اس نے کہا: تین طلاق کے ساتھ ، پس اگر وہ شوہر کہے کہ میں نے اپنی بیوی کی نیت سے طلاق کے الفاظ کہے، تو طلاق واقع ہوگی، اور اگر اس نے کچھ نہ کہا تو طلاق نہ ہوگی( فتاوی عالمگیری الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية ج ۱ ص۳۸۲)

فتاوی رضویہ میں اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے جب ایسے شخص کے بارے میں سوال ہوا جس نےاپنی اپنی بیوی کا نام لئے بغیر اسکی غیرموجودگی  کے لئے”ایک طلاق، دو۲طلاق، تین طلاق” کے الفاظ استعمال کہے لیکن ”دیتا ہوں”یا”نہیں دیتاہوں” کچھ نہ کہا تو آپ علیہ الرحمہ نے اس کا تفصیل سے جواب دیتے ہوئے جو فرمایا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حکم دو طرح ہوتا ہے ایک دیانۃً اور دوسرا قضاءً۔
 دیانۃً حکم کا معنٰی یہ ہے کہ بندے اور اﷲتعالٰی کے درمیان کا معاملہ ہے یہاں کسی دوسرے کا کوئی دخل نہیں، بندہ جانےاور اس کا خداجانے اور سوال میں بیان کی گئی صورت میں بیوی کی طرف طلاق کی اضافت کا ارادہ نہ کیا ہو تو قطعاً طلاق نہ ہوئی، کیونکہ طلاق کا وقوع  واقع کرنے کے بغیر نہیں ہوتا اور طلاق کا واقع کرنا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک طلاق کا تعلق بیوی سے نہ کیاجائے اور یہ اضافت کے بغیر ممکن نہیں اس لئے اضافت ضروری ہے خواہ نیت میں ہو، تو طلاق جب اضافت لفظی یا قلبی سے خالی ہو تو طلاق کا تعلق پیدا نہ ہوگا کیونکہ تعلق بغیر متعلق نہیں ہوسکتا، اس لئے ایقاع نہ ہوگا، تو وقوع بھی نہ ہوگا، اتنی بات واضح ہے جس میں کوئی شبہ نہیں ہوسکتا. اور قضاءً بھی طلاق کو واقع کرنے کے حکم کے لئے اضافت کا تحقق ضروری ہے( فتاوی رضویہ ج ١٢ ص ٣٣٦ رضا فاؤنڈیشن )

فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہار شریعت میں تحریر فرماتے ہیں کہ "طلاق میں اضافت ضرور ہونی چاہيے بغیر اضافت طلاق واقع نہ ہوگی خواہ حاضر کے صیغہ سے بیان کرے مثلاً تجھے طلاق ہے یا اشارہ کے ساتھ مثلاً اسے یا اُسے یا نام لے کر کہے کہ فلانی کو طلاق ہے یا اُس کے جسم و بدن یا روح کی طرف نسبت کرے یا اُس کے کسی ایسے عضو کی طرف نسبت کرے جو کل کے قائم مقام تصور کیا جاتا ہو"۔ (بہار شریعت ج ١ ح ٨ ص ١١ فرید بک ڈپو نئی دہلی ) 

مندرجہ بالا حوالہ جات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ بغیر اضافت کے طلاق واقع نہ ہوگی خواہ اضافت لفظی ہو یا معنوی جب تک کہ مطالبئہ طلاق یا مذاکرہء طلاق نہ ہو
نوٹ: زید سے قسم لی جائے اگر قسم کھالیتاہے تو ان کا یعنی شوہر وبیوی کا آپس میں مل کر رہنے میں کوئی حرج نہ ہوگا اور اگر قسم نہ کھائے یا ٹال مٹول کرے یاباتیں بنائے تو اسے  مجبور کیا جاۓ کہ بیوی سے دور رہے جب تک حلالہ ہوکر عدت نہ گزر جائے یا ہمیشہ کے لئے الگ ہوجائیں اور اگر ایسا نہ کرے تو محلہ کے مسلمانوں پر لازم ہے کہ سماجی بائیکاٹ کردیں.واللہ تعالٰی جل جلالہ و رسولہ الاعلٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم اعلم بالصواب 

کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی 
شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند 
بتاریخ  ٧ نومبر ٢٠٢٤ء
مطابق ٤ جمادی الاول ١٤٤٦ھ
 بروز چہار شنبہ ( بدھ )

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only