(دوبیوی ،والد، اور بیٹے میں وراثت کیسے تقسیم کیا جائے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ ۱۹؍فٹ زمین کو 2بیوی 1والد اور 2بیٹا میں از روئے شرع کیسے تقسیم ہوگا از راہ کرم باالتفصیل جواب عنایت فرمائیں کرم ہوگا۔
المستفتی:۔ عبداللہ
وعلیکم السلام ور حمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
سب سے پہلے اس بات کو سمجھ لیجئے کہ جب کسی کا انتقال ہوجائے تو پہلے تین چیزیں اس کے مال و اسباب سے پوری کی جائیں گی، سب سے پہلے تجہیز و تکفین کا خرچ پورا کیا جائے گا، عام طور پر دوست احباب رشتہ دار خرچ کردیتے ہیں اور کوئی مطالبہ نہیں کرتے یہ بھی درست ہے، البتہ بیوی کا انتقال ہوا اور شوہر زندہ ہے تو اس کی تجہیز و تکفین(کفن دفن) کا خرچ اس کے مال سے نہیں کیا جائے گا بلکہ شوہر پر لازم ہوگا، دوسرے نمبر پر مرحوم کے قرض کی ادائیگی اُس کے مال سے کی جائے گی، تیسرے نمبر پر تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد اور قرض کی ادائیگی کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو تہائی ترکے سے وصیت پوری کی جائے گی۔ اس کے بعد بچنے والا مال ورثاء میں اُن کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔
اور پوچھی گئی صورت میں مرحوم کا مکمل ترکہ(48) حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے مرحوم کی دو بیویوں کے درمیان(6) حصے تقسیم ہوں گے اور وہ اس طرح کہ ہر ایک بیوہ کو(3۔3) حصے ملیں گے، کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں بیویوں کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ۔(النساء:۱۲/۴) ترجمہ کنز الایمان:پھر اگر تمہاری اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں ہے۔
اور(48) حصوں میں سے مرحوم کے والد کو آٹھ حصے ملیں گے کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں اُس کے باپ کو چھٹا حصہ ملتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے:وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌ۔(النساء:۱۱/۴) ترجمہ کنز الایمان:اور میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو اس کے ترکہ سے چھٹا اگر میت کے اولاد ہو۔
اور بقیہ(34) حصے مرحوم کے دو بیٹوں میں بطورِ عصبہ تقسیم ہوں گے اور وہ اس طرح کہ ہر ایک بیٹے کو(17۔17) حصے ملیں گے، کیونکہ حدیث شریف میں ہے:عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ»۔(صحیح البخاری،کتاب الفرائض،باب میراث الولد من ابیہ وامہ،۹۹۷/۲)
یعنی،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:فرائض ذوی الفروض کو دو،اور جو بچ جائے وہ قریب ترین مرد کے لئے ہے۔
اس حدیث کے تحت ملّا علی قاری حنفی متوفی1014ھ لکھتے ہیں:قال النووی: قد اجمعوا علی ان ما بقی بعد الفرائض فھو للعصبات یقدم الاقرب فالاقرب۔(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الفرائض والوصایا،الفصل الاوّل،۲۰۹/۶)
یعنی،امام نووی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ فقہاء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ جو اصحابِ فرائض کے بعد باقی بچے وہ عصبات کے لئے ہے، جو سب سے زیادہ قریبی ہے اس کو مقدم کیا جائے گا پھر اس کے بعد والا۔ حاصل کلام یہ ہے کہ مرحوم کے ورثاء اگر واقعی وہی ہیں جو سوال میں مذکور ہیں، تو اُس کا مکمل ترکہ وراثت پر مقدم اُمور کے بعد(48) حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے ہر ایک بیوہ کو(3۔3) ملیں گے، جبکہ والد صاحب کو(8) حصے ملیں گے اور بقیہ(34) حصے مرحوم کے دو بیٹوں میں تقسیم ہوں گے اور وہ اس طرح کہ ہر ایک بیٹے کو(17۔17) حصے ملیں گے۔واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد اُسامہ قادری
ایک تبصرہ شائع کریں