(بیوی، تین بیٹے، دو بیٹیوں میں وراثت کیسے تقسیم کیا جائے گا؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔ کیا فرما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید نے انتقال کے بعد ایک بیوی، تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کو چھوڑا، جب کہ زید نے انتقال سے قبل اپنے بیٹوں سے یہ کہا تھا کہ زمین تم تینوں بیٹے آپس میں تقسیم کر لینا؟
(المستفتی:۔ خالد،انڈیا)
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
سب سے پہلے تجہیز و تکفین (یعنی،کفن دفن) کا خرچ پورا کیا جائے گا، عام طور پر دوست احباب رشتہ دار خرچ کردیتے ہیں اور کوئی مطالبہ نہیں کرتے یہ بھی درست ہے، دوسرے نمبر پر مرحوم کے قرض کی ادائیگی اُس کے مال سے کی جائے گی، اور تیسرے نمبر پر اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو تہائی ترکے سے وصیت پوری کی جائے گی، اس کے بعد بچنے والا مال ورثاء میں اُن کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔مرحوم نے اپنے تینوں بیٹوں کیلئے جس زمین کی وصیت کی تھی، وہ وصیت باطل ہے، کیونکہ بیٹے اُس کے وارث ہیں، اور وارث کیلئے کوئی وصیت قابل قبول نہیں ہے۔
چنانچہ حدیث شریف میں ہے: "فَلَا وَصِیَّۃَ لِوَارِثٍ"(سنن ابی داود،کتاب الوصایا،باب ماجاء فی الوصیۃ للوارث،196/3)یعنی،وارث کیلئے کوئی وصیت نہیں ہے۔
پس مرحوم کی زمین اب ترکہ میں شمار ہوگی، لہٰذا مرحوم کی زمین اور جو کچھ بھی اُس کی جائیداد ہے، وہ سب وراثت پر مقدّم اُمور کو نمٹانے کے بعد (64) حصوں پر تقسیم ہوگا، جس میں سے بیوہ کو آٹھ حصے ملیں گے، کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں بیوہ کو آٹھواں حصہ ملتا ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں ہے: "فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ" (النساء:12/4)ترجمہ کنز الایمان:- پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں۔
اور بقیہ(56) حصے مرحوم کے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کے درمیان تقسیم ہوں گے، اور وہ اس طرح کہ ہر ایک بیٹے کو(14۔14) حصے ملیں گے، جبکہ ہر ایک بیٹی کو(7۔7) حصے ملیں گے، کیونکہ بیٹے کا حصہ بیٹی کے مقابلے میں دُگنا ہوتا ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں ہے: "یُوْصِیْكُمُ اللّٰهُ فِیْۤ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ" (النساء،11/4)ترجمہ کنز الایمان:- اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر۔واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد اُسامہ قادری
ایک تبصرہ شائع کریں