السلام علیکم ورحمۃالله وبرکاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں
بیٹا زید ابھی ماں کے شکم میں تھا اور باپ بکر کا دنیا سے انتقال ہوگیا اب زید کے پیدا ہونے کے بعد زید اپنے باپ بکر کے جائداد میں حصہ کا حقدار ہوگا یا نہیں؟؟
قرآن وسنت کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں عین نوازش کرم ہوگا۔
(المستفتی غلام قادر برکاتی ) چترا جھارکھنڈ
(بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم)
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:
زید اپنے باپ کی میراث کاحقدار ہوگا یعنی اسکو حصہ ملے گا اگرچہ باپ کے انتقال کے بعد پیدا ہواجیساکہ: شیخ نظام الدین اور علماء ہند کی ایک جماعت فرماتی ہے کہ:الحمل یرث ویوقف نصیبه باجماع الصحابۃ رضی اللہ عنہم اھ..ترجمہ حمل وارث ہوگا اور اس کا حصہ موقوف رکھا جائے گا اس پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔(فتاویٰ عالمگیری، کتاب الفرائض، الباب السابع فی میراث الحمل، جلد ٦، صفحہ ٥٠٤، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)
صدر الشریعہ بدر الطریقہ حضرت علامہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ: اگر تقسیم وراثت کے وقت بیوی کے پیٹ میں بچہ ہو تو اس کا حصہ محفوظ رکھا جائے گا۔(بہار شریعت، حصہ ۲۰ صفحہ ۱۱۷۶/ مطبوعہ دعوت اسلامی)
مزید تفصیل کے لئے بہار شریعت کے مذکورہ ص کا مطالعہ کریں
لہذا زید اپنے باپ کی وراثت کا حقدار ہوگا۔ والله تعالیٰ عزوجل و رسوله ﷺ أعلم بالصواب۔
کتبه: وکیل احمد صدیقی نقشبندی پھلودی جودھپور راجستھان (الھند)۔
٢٦ جمادی الثانی ١٤٤٥۔ بروز پیر 11 دسمبر 2023۔
ایک تبصرہ شائع کریں