(باپ کی میراث اولاد میں کیسے تقسیم ہو؟)
السلا م علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ میں کہ زید کا انتقال ہو گیا ہے اس کے دو بیوی ہے ہندہ اور زینب چار لڑکے 1 عمر 2 خالد 3 بکر 4 حسنتین لڑکیاں 1 فاطمہ 2 رقیہ 3 کلثوم اب سوال یہ ہے کہ زید کی وراثت کس کو کتنا ملیگا؟جواب دیکر شکریہ کا موقع دیں۔المستفتی: حافظ محمد مزمل حسین اشرفی،پالی راجستھان
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکا تہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
صورت مسئولہ میں جاننا چاہیے کہ جب کسی کا انتقال ہوجائے تو پہلے تین چیزیں اس کے مال و اسباب سے پوری کی جائیں گی ۔(۱)سب سے پہلے تجہیز و تکفین کا خرچ پورا کیا جائے گا۔عام طور پر دوست احباب رشتہ دار خرچ کردیتے ہیں اور کوئی مطالبہ نہیں کرتے یہ بھی درست ہے، البتہ بیوی کا انتقال ہوا اور شوہر زندہ ہے تو اس کی تجہیز و تکفین (کفن دفن)کا خرچ اس کے مال سے نہیں کیا جائے گا بلکہ شوہر پر لازم ہوگا(۲) دوسرے نمبر پر مرحوم کے قرض کی ادائیگی اس کے مال سے کی جائے گی (۳)تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد اور قرض کی ادائیگی کے بعد اگر کوئی جائز وصیت کی ہو تو تہائی ترکے سے وصیت پوری کی جائے گی۔ اس کے بعد بچنے والا مال ورثاء میں ان کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔
اور پوچھی گئی صُورت میں مرحوم کا مکمل ترکہ ۱۷۶حصوں پر تقسیم ہوگا اُن میں (۱۱،۱۱)حصّے ہر ایک بیوہ کو ملیں گے،کیونکہ میت کی اولاد ہونے کی صورت میں بیوہ کو آٹھواں حصّہ ملتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ہے: فان کان لکم ولد فلہن الثمن مما ترکتم۔(النساء)ترجمہ:- پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں۔ اور بقیہ ۱۵۴ حصے مرحوم کے چار بیٹوں اور تین لڑکیوں کے درمیان تقسیم ہوں گے اور وہ اس طرح کہ ہر ایک بیٹے کو (۲۸،۲۸)حصے ملیں گے جبکہ ہر ایک بیٹی کو (۱۴،۱۴) حصے ملیں گے۔کیونکہ بیٹے کو بیٹی کے مقابلے میں دگنا حصہ ملتا ہے۔
چنانچہ قرآن کریم میں ہے:یوصیکم اللہ فی اولادکم للذکر مثل حظ الانثیین۔ (النساء)ترجمہ:- اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد اُسامہ قادری
ایک تبصرہ شائع کریں