الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص فوت ہوگیا ہے، اس کے ورثاء میں ایک بیوی، ایک بہن اور تین بھتیجے ہیں، ہر ایک کو کتنا کتنا حصہ ملے گا؟
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:برتقدیر صدق سائل وانحصار ورثاء در مذکورین بعدِ اُمورِ ثلاثہ متقدّمہ علی الارث(یعنی،کفن دفن کے تمام اخراجات اور اگر مرحوم کے ذمے قرض ہو تو اس کی ادائیگی اور غیرِ وارث کیلئے وصیت کی ہو، تو تہائی ۱/۳ مال سے اُسے پورا کرنے کے بعد) مرحوم کا مکمل ترکہ بارہ(١٢) حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے بیوہ کو چوتھا حصہ یعنی تین(٣) حصے ملیں گے، کیونکہ میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں بیوہ کا چوتھائی حصہ ہوتا ہےچنانچہ قرآن کریم میں ہے:وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌ(النساء:١٢/٤)ترجمہ کنز الایمان:اور تمہارے ترکہ میں عورتوں کا چوتھائی ہے اگر تمہارے اولاد نہ ہو
اور بہن کو مکمل ترکہ سے نصف حصہ یعنی چھ حصے ملیں گے، کیونکہ میت کی اولاد نہ ہونے کی صورت میں ایک بہن کا نصف حصہ ہوتا ہےچنانچہ قرآن کریم میں ہے:اِنِ امْرُؤٌا هَلَكَ لَیْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَهٗۤ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ(النساء:١٧٦/٤)
ترجمہ کنز الایمان:اگر کسی ایسے مرد کا انتقال ہو جو بے اولاد ہے اور اس کی ایک بہن ہو تو ترکہ میں اس کی بہن کا آدھا ہے
اور بقیہ تین حصے مرحوم کے تین بھتیجوں میں بطورِ عصبہ تقسیم ہوں گے اور وہ اس طرح کہ ہر ایک بھتیجے کو ایک ایک(١،١) حصہ ملے گا، کیونکہ حدیث شریف میں ہے:أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ(صحیح البخاری،کتاب الفرائض،باب میراث الولد من ابیہ وامہ،۹۹۷/۲)
یعنی،فرائض ذوی الفروض کو دو، اور جو بچ جائے وہ قریب ترین مرد کے لئے ہے
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:
محمد اُسامہ قادری
پاکستان،کراچی
منگل،٢٠/رجب١٤٤٣ھ٢٢/فروری٢٠٢٢م
ایک تبصرہ شائع کریں