(اپنی زندگی میں اولا د کو مال کیسے تقسیم کریں؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیںعلمائے کرام اس مسئلہ میں کہزید کے پاس ایک کروڑ کی مالیت ہے ان کی بیوی، سات بیٹے اور آٹھ بیٹیاں زندہ ہیں زید اپنی زندگی میں مال کوفروخت کرکے تقسیم کر نا چا ہتا ہے توشرعی اعتبار سے ہر ایک کو کتنا کتنا دینا ہو گا ؟رہنما ئی فرمائیں۔بینواتو جروا
المستفتی:۔ذوالفقار علی کرا چی پاکستان
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
ترکہ زندگی میں نہیں بلکہ موت کے بعد بٹتا ہے اور اگر زید اگر اپنی زندگی میں دینا چا ہتا ہے تو اس کو اختیار ہے جس کو جتنا چاہے دے سکتا مگر سب کو برابر دینا افضل ہے ۔
چو نکہ لڑکیوں کو باپ کے انتقال کے بعد مال میراث سے کچھ نہیں دیاجاتا ہے بالخصوص ہمارے ہندوستان میں اس لئے اگر زید مورث کے مرنے کے بعد وارثین کو جتنا حصہ ملتا ہے اس لحاظ سے زندگی میں دینا چا ہتا ہے تو پورے مال کو یعنی ایک کروڑ کو آٹھ سے تقسیم کرکے ایک حصہ یعنی بارہ لاکھ پچاس ہزار(۱۲۵۰۰۰۰) بیوی کو دے دیا جا ئے کیونکہ اولاد ہو نے کی صورت میں بیوی کا آٹھواں حصہ ہے جیسا کہ ارشاد ربا نی ’’وَلَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ۔فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْدَیْنٍ‘‘اور تمہا رے ترکہ میں عورتوں کاچوتھائی ہے اگر تمہارے اولاد نہ ہو،پھر اگر تمہارے اولاد ہو، تو ان کا تمہا رے ترکہ میں سے آٹھواں، جو وصیت تم کرجاؤاور دین نکال کر۔(سورہ نساء آیت نمبر ۱۲)
بقیہ بچاستاسی لاکھ پچاس ہزار(۸۷۵۰۰۰۰) تو اس کو بائیس(۲۲)سے تقسیم کرکے ہر لڑکی کو ایک حصہ یعنی (۲۷۔۷۲۷،۹۷،۳)تین لاکھ ستانوے ہزارسات سو ستا ئیس روپئے اور ستا ئیس پیسے دیدیا جائے اور ہر ایک لڑکے دو دو گنا یعنی(۵۴۔۴۵۴،۹۵،۷)سات لا کھ پنچانوے ہزار چار سو چو ن روپئے چون پیسے دیدیا جا ئے۔ کیونکہ لڑکیوں کے بنسبت لڑکوں کا دو گنا ہے جیسا کہ ارشاد ربا نی ہے(سورہ نساء آیت نمبر ۱۲) واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
فقیر تاج محمد قادری واحدی
ایک تبصرہ شائع کریں