منگل، 31 دسمبر، 2024

(جو قرآن شریف کے مطابق فیصلہ نہ کراس پر حکم شرع کیا ہے؟)

 (جو قرآن شریف کے مطابق فیصلہ نہ کراس پر حکم شرع کیا ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ جس طرح قرآن پاک کے اندر رب تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ قرآن پاک کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے وہ لوگ کافر ہیں ظالم ہیں فاسق ہیں۔یہ حکم کن کے واسطے ہیں۔مطلب جو مسلمانوں کی حکومتیں فیصلہ نہیں کرتی ہیںتو کیا وہ کافر ہو جائیں گے یا نہیں؟المستفتی: فیاض پاکپتن شریف پاکستان۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
   قرآن مجید کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والا اگر وہ مسلمان ہے تو کافر نہیں ہوجائے گا۔ ہاں سخت گنہگار و ظالم ضرور ہے۔ اگر یہ کافر ہوجاتا تو پھر نماز چھوڑنے والا بھی کافر ہوجاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ تم نماز پڑھو۔ تو جو نماز نہیں پڑھتا ہے وہ کافر ہوجاتا لیکن ایسا نہیں بلکہ وہ فاسق و فاجر ہے لیکن کافر نہیں۔ البتہ اگر وہ اس وجہ سے قرآن کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا ہے کہ وہ قرآن کی آیت ہے اور آیت قرآنی کا انکار کرتا ہے تو وہ فیصلہ نہ کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ آیت قرآنی کی انکار کرنے کی وجہ سے ضرور کافر ہوگا۔  اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ-اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا۔ترجمہ کنزالایمان: بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بے شک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے بے شک اللہ سنتا دیکھتا ہے۔انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا: نظامِ عدل و عدالت کی روح ہی یہ ہے کہ انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے۔ فریقَین میں سے اصلاً کسی کی رعایت نہ کی جائے۔ علماء نے فرمایا کہ حاکم کو چاہئے کہ پانچ باتوں میں فریقین کے ساتھ برابر سلوک کرے۔ (۱) اپنے پاس آنے میں جیسے ایک کو موقع دے، دوسرے کو بھی دے۔ (۲) نشست دونوں کو ایک جیسی دے۔ (۳) دونوں کی طرف برابر مُتَوَجِّہ رہے۔ (۴) کلام سننے میں ہر ایک کے ساتھ ایک ہی طریقہ رکھے۔ (۵) فیصلہ دینے میں حق کی رعایت کرے جس کا دوسرے پر حق ہو پورا پورا دِلائے۔ حدیث شریف میں ہے کہ:  انصاف کرنے والوں کو قربِ الٰہی میں نورکے منبر عطا کئے جائیں گے۔ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامام العادل۔۔۔ الخ، ص۱۰۱۵، الحدیث: ۱۸(۱۸۲۷ بحوالہ صراط الجنان)
  اور اسلام میں اس بات کی کوئی گنجائش نہیں کہ آدمی اپنی قوم یا خاندان کی ہر معاملے میں تائید کرے اگرچہ وہ باطل پر ہوں بلکہ حق کی اِتّباع کرنا ضروری ہے۔ اس میں رنگ و نسل، قوم وعلاقہ، ملک و صوبہ، زبان و ثقافت کے ہر قسم کے تعصب کا رد ہے۔ کثیر احادیث میں بھی تعصب کا شدید رد کیا گیا ہے ، چنانچہ ان میں سے ایک حدیث بیان کرتا ہوں۔حضرت فُسِیلہ رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں : میرے والد نے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں عرض کی: یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، کیا اپنی قوم سے محبت رکھنا بھی تعصب ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، نے ارشاد فرمایا ’’نہیں ، بلکہ اپنی قوم کی ظلم میں مدد کرنا تعصب ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب العصبیۃ، ۴/۳۲۷، الحدیث: ۳۹۴۹ بحوالہ صراط الجنان سورہ نساء آیت ۱۰۵ تا ۱۰۶).۔ واللہ اعلم باالصواب
کتبہ
فقیر محمد اشفاق عطاری

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only