بدھ، 25 دسمبر، 2024

الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ میں کہ ہندہ بیوہ کے ورثاء میں ایک لڑکی، ایک پوتا اور تین پوتیاں ہیں تو ہندہ کی جائیداد سے کس کو کتنا حصہ ملے گا؟ مفصّل جواب عنایت فرمائیں، نوازش ہوگی

(سائل:محمد منظر مصباحی، انڈیا)
باسمہ تعالیٰ وتقدس الجواب:برتقدیر صدقِ سائل وانحصار ورثاء در مذکورین بعدِ اُمورِ ثلاثہ متقدّمہ علی الارث بحسبِ شرائطِ فرائض مرحومہ کا مکمل ترکہ چھ حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے بیٹی کو تین حصے ملیں گے کیونکہ ایک بیٹی کیلئے نصف حصہ ہوتا ہےچنانچہ قُرآنِ کریم میں ہے:اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ(النسآء:١١/٤)
ترجمہ:اگر ایک لڑکی(ہو) تو اس کا آدھا(کنز الایمان)
   اور ایک حصہ مرحومہ کی پوتیوں کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوگا کیونکہ میت کی ایک بیٹی کی موجودگی میں پوتیاں کُل ترکہ کے چھٹے حصے میں شریک ہوتی ہیںچنانچہ علامہ سراج الدین محمد بن عبد الرشید سجاوندی حنفی متوفی٦٠٠ھ لکھتے ہیں:بنات الابنلھن السدس مع الواحدة الصلبیة تکملة للثلثین(السراجیة،ص٢١)
یعنی،میت کی ایک بیٹی ہو تو پوتیوں کو چھٹا حصہ ملے گا تاکہ لڑکیوں کا حصہ دو تہائی پورا ہوجائے
   اور بقیہ دو حصے مرحومہ کے پوتے کو بطورِ عصبہ ملیں گےچنانچہ حدیث شریف میں ہے:الحقوا الفرائض باھلھا، فما بقی فھو لاولی رجل ذکر
(صحیح البخاری،۹۹۷/۲)
یعنی،فرائض ذوی الفروض کو دو اور جو بچ جائے وہ قریب ترین مرد کے لئے ہے
   لہٰذا کُل ترکہ سے بیٹی کو تین حصے اور پوتے کو دو حصے ملیں گے اور ایک حصہ تینوں پوتیوں کے درمیان برابر برابر تقسیم ہوگا
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:
محمد اُسامہ قادری
پاکستان،کراچی
جمعہ٢١/جمادی الاولیٰ،١٤٤٤ھ١٦/دسمبر،٢٠٢٢ء

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only