(امانت میں خیانت کرناکیساہے؟)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلہ میں کہ عاطف نے شاہزیب کو سو روپے دئے اور کہا کہ یہ سو رپیے ناظم کو دے دینا لیکن ناظم کے اوپر شاہزیب کے سو روپے پہلے سے ادھار تھے تو شاہزیب نے وہ سو روپے ناظم کو نہیں دیئے بلکہ ادھار کے بدلے میں اپنے پاس رکھ لیے اور ناظم کو نہیں دئیے بلکہ ناظم سے کہ دیا کہ میں نے تمہارے پیسہ رکھ لئے ایسا کرنا کیسا ہے؟ کیا اس صورت میں عاطف کا قرض ادا ہوا کہ نہیں کیونکہ عاطف کے پیسے ناظم تک نہیں پہنچے؟ نیز اگر شاہزیب نے وہ پیسے رکھ لئے تو ناظم اپنے قرض سے بری ہوا کہ نہیں ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
السائل ۔حافظ محمد عاطف قادری ۔
ساکن ۔ محلہ گودام ۔ شیری چوک قادری منزل بہیڑی ضلع بریلی شریف
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
الجواب بعون الملک الوھاب وھو الموفق للحق والصواب
السائل ۔حافظ محمد عاطف قادری ۔
ساکن ۔ محلہ گودام ۔ شیری چوک قادری منزل بہیڑی ضلع بریلی شریف
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
الجواب بعون الملک الوھاب وھو الموفق للحق والصواب
شاہزیب اپنے موکل یعنی عاطف کا وکیل ہے اور وکیل امین ہوتا ہے اور بنص قرآنی امانت میں خیانت کرنا حرام ہے ۔ لہذا شاہزیب کو 100 روپے کی رقم جو اس کے ہاتھ میں امانت ہے اس کے صاحب یعنی ناظم تک پہنچانا ضروری ہے ، وکیل اپنے موکل کے حکم کے خلاف تصرف نہیں کر سکتا۔
اگر شاہزیب نے ناظم کی اجازت کے بغیر پیسے رکھ لئے تو عاطف اپنے قرض سے بری نہیں ہوگا کیونکہ عاطف کا قرض جب ادا ہوگا جب وہ پیسے ناظم تک پہونچ جاتے۔ نیز ناظم بھی قرض ادا نہ ہوا۔
لہذا حکم شرع یہ ہے کہ شاہزیب ناظم کو رقم دے کر پھر اپنا قرض طلب کرلے یا پھر ناظم کو بتا دے کہ عاطف نے آپ کو سو روپیہ دیا ہے اجازت ہو تو میں رکھ لوں تاکہ آپ کا بھی قرض ادا ہو جا ئے اگر ناظم راضی ہوجائے جب بھی دونوں کا قرض ادا ہوجائے گا اور اگر ایسانہ کیا تو کسی کا قرض ادا نہ ہوگا اور شاہزیب امانت میں خیانت کرنے کے سبب گنہگار بھی ہوگا۔
پھر سے شاہزیب کو سو روپے دینا ہوگا ناظم کو۔ کیونکہ ناظم کا قرض جب ادا ہوتا جب کہ ناظم 100 روپے کا حقیقۃ یا حکما مالک بن جاتا پھر وہ دیتا اس صورت میں مالک ہی نہیں بنا تو پھر قرض کی ادائیگی بھی نہیں ہوئی، ہاں اگر ناظم شاہزیب سے کہ دیتا کہ ہاں وہ پیسے تم رکھ لو میرا قرض ادا ہو جائے گا تو اس صورت میں ناظم حکما اس رقم کا مالک ہو جاتا اور اس کا قرض بھی ادا ہو جاتا اور ساتھ میں عاطف کا بھی قرض ادا ہو جاتا کیونکہ جب حکما ناظم مالک بن گیا تو گویا کہ عاطف کی رقم ناظم تک پہونچ گئی ، لہذا عاطف و نظم دونوں اپنے قرض سے بری ہو جاتے۔
وکیل امین ہوتا ہے اور وکیل کا قبضہ مؤکل ہی قبضہ شمار ہوتا ہے ، اس کی تصریح کرتے ہوئے ملا نظام الدین ہندی فرماتے ہیں "قیام الوکیل مقام المؤکل فیما وکل بہ ولا یجبر الوکیل فی اتیان ما وکل بہ الا فی دفع الامانۃ بان قال لہ ادفع ھذا الثوب الی فلاں فقبلہ وغاب الآمر یجبر المامور علی دفعہ، انہ امین فیما فی یدہ "(فتاویٰ ہندیہ جلد 3، کتاب الوکالۃ ، الباب الاول فی بیان معناھا ، ص 521، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)) لبنان)
ترجمہ ۔ جس کام پر وکیل بنایا جائے اس کام میں وکیل مؤکل کے قائم مقام ہوتا ہے ، جس کام پر وکیل بنایا گیا ہو اس کام کے کرنے پر وکیل کو مجبور نہیں کیا جا سکتا مگر امانت سپرد کرنے میں ، بایں طور کہ کسی نے کہا کہ یہ کپڑا فلاں شخص کو دے آ اور وکیل نے اس کام کو قبول کر لیا اور مؤکل یعنی حکم دینے والا غائب ہو گیا تو پھر وکیل وہ امانت دینے پر مجبور کیا جایےگا، وکیل کے ہاتھ میں جو بھی ہے وہ اس کے معاملہ میں امین کی منزل میں ہے ۔
وکیل امین ہوتا ہے اور وکیل کا قبضہ مؤکل ہی قبضہ شمار ہوتا ہے ، اس کی تصریح کرتے ہوئے ملا نظام الدین ہندی فرماتے ہیں "قیام الوکیل مقام المؤکل فیما وکل بہ ولا یجبر الوکیل فی اتیان ما وکل بہ الا فی دفع الامانۃ بان قال لہ ادفع ھذا الثوب الی فلاں فقبلہ وغاب الآمر یجبر المامور علی دفعہ، انہ امین فیما فی یدہ "(فتاویٰ ہندیہ جلد 3، کتاب الوکالۃ ، الباب الاول فی بیان معناھا ، ص 521، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت)) لبنان)
ترجمہ ۔ جس کام پر وکیل بنایا جائے اس کام میں وکیل مؤکل کے قائم مقام ہوتا ہے ، جس کام پر وکیل بنایا گیا ہو اس کام کے کرنے پر وکیل کو مجبور نہیں کیا جا سکتا مگر امانت سپرد کرنے میں ، بایں طور کہ کسی نے کہا کہ یہ کپڑا فلاں شخص کو دے آ اور وکیل نے اس کام کو قبول کر لیا اور مؤکل یعنی حکم دینے والا غائب ہو گیا تو پھر وکیل وہ امانت دینے پر مجبور کیا جایےگا، وکیل کے ہاتھ میں جو بھی ہے وہ اس کے معاملہ میں امین کی منزل میں ہے ۔
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :وکیل کے قبضہ میں جو چیز ہوتی ہے وہ بطورِ امانت ہے یعنی ضائع ہو جانے سے ضمان واجب نہیں"(بہار شریعت جلد 2، حصہ12، وکالت کا بیان ، مسئلہ 33، ص 981 ، مطبوعہ المکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی)
قرض لینے والے ( عاطف ) کے وکیل ( شاہزیب )سے قرض دینے والے (ناظم) کا قبضہ کرنے سے قبل قرض کی رقم کو کسی کام میں صرف کرنے کی اجازت دینا جائز و درست ہے ، گویا کہ اپنی رقم کو استعمال کرنے کی اجازت دینا ہے ، جیسا کہ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:زید کا عمرو پر دَین ہے زید نے عمرو سے کہا کہ تمھارے ذمہ جو میرے روپے ہیں اُن کے بدلے فلاں چیز معین میرے لیے خرید لو یا فلاں سے فلاں چیز خرید لو یعنی چیز معین کر دی ہو یا بائع کو معین کر دیا ہو یہ توکیل صحیح ہے عمرو خرید کر جب وہ روپیہ بائع کو دیدے گا زید کے دَین سے بری الذمہ ہو جائے گا زید نہ تو چیز کے لینے سے انکار کر سکتا ہے نہ اب دَین کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
دائن نے مدیون سے کہہ دیا کہ میرا روپیہ جو تمھارے ذمہ ہے اُسے خیرات کر دو یہ کہنا صحیح ہے خیرات کر دے گا تو دائن کی طرف سے ہو گا اب دَین کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔ یوہیں مالک مکان نے کرایہ دار سے یہ کہا کہ کرایہ جو تمھارے ذمہ ہے اُس سے مکان کی مرمت کرادو اُس نے کرا دی درست ہے کرایہ کا مطالبہ نہیں ہو سکتا۔(بہار شریعت جلد 2، حصہ12، خرید وفروخت میں توکیل کا بیان ، مسئلہ 35۔36. ص 989 ، مطبوعہ المکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی)واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم بالصواب ۔
کتبہ ۔ العبد الضعیف الحقیر محمد ایاز حسین تسلیمی بہیڑوی ۔
ساکن ۔ محلہ ٹانڈہ بہیڑی ضلع بریلی شریف ۔
مؤرخہ ۔۔ 2025....1..14.
ساکن ۔ محلہ ٹانڈہ بہیڑی ضلع بریلی شریف ۔
مؤرخہ ۔۔ 2025....1..14.
ایک تبصرہ شائع کریں