بدھ، 30 اپریل، 2025

(بیوہ اگر دوسری شادی کرلے تو وراثت میں حصہ پائےگی؟)

(بیوہ اگر دوسری شادی کرلے تو وراثت میں حصہ پائےگی؟)
 السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماے کرام ومفتیان عظام مسئلہ ذیل میں زید چھ بھائی ہیں زید کے انتقال کے وقت اس کے پانچ بھائی ماں باپ بیوی ایک بیٹا باحیات تھے زید کے انتقال کے بعد زید کی بیوی نے دوسری شادی کرلی اور زید کالڑکا دادا دادی کے پاس رہتاہے دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید کا بیٹا اب اپنے دادا کے جائداد میں سے حصہ پاے گا یا نہیں؟ نیز زید کی بیوی شوہر کےمال میں حصہ پائےگی یانہیں؟گاوں کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کی زید کے بیٹے کا اس کے دادا کی جائداد سے حصہ نہیں ملے گایہ بات درست ہے کہ نہیں؟حوالے کے ساتھ جواب مل جاے نوازش ہو گی! 
المستفتی:ارشاد احمد سنہٹیااترولہ 

وعلیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوھاب
١ سب سے پہلے مرحوم کے اموال متروکہ سے حقوق متقدمہ یعنی میت کے کفن و دفن کے اخراجات نکالے جائیں گے
٢ اس کے بعد مرحوم کے ذمہ کسی کا قرض تھا تو اسے ادا کیا جاۓگا ورنہ نہیں 
٣ اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی تھی تو اس کے ثلث یعنی ایک تہائی ( ١/٣ ) مال سے وصیت ادا کی جاۓگی ورنہ نہیں
 بعد تقدیم ما یقدم علی الارث  مرحوم (زید)کی متروکہ جائداد (منقولہ غیر منقولہ) کے ٢٤ حصے کیے جائیں گے جن میں سے مرحوم کی بیوہ کو تین حصے ملیں گے والد اور والدہ دونوں کو چار،چار حصے ملیں گے اور بیٹے کو ١٣ حصے ملیں گے، اور بھائیوں کو اس میں سے کچھ نہیں ملےگا! 
والدین کی وراثت کے بارے میں  اللہ تبارک و تعالٰی ارشاد فرماتا ہے:"وَ لِاَبَوَیْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ اِنْ كَانَ لَهٗ وَلَدٌۚ-الخ
ترجمہ:اور میت کے ماں باپ کو ہر ایک کو اس کے ترکہ سے چھٹا اگر میت کے اولاد ہو
زید کی بیوی بھی دیگر ورثہ کی طرح شرعاً اس کی جائداد کی حقدار ہے خواہ وراثت سے حصہ پانے کے بعد دوسری شادی کرے یا نہ کرے،کیوں کہ وراثت بعد موت لازم ہو جاتی ہے چاہے وقت پر ادا کریں ہو یا بعد میں۔ادا کرنا ضروری ہے،چنانچہ قرآن مجید میں ہے:"فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم"۔۔الخ
ترجمہ:پھر اگر تمہارے اولاد ہو تو ان (بیویوں) کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں حصہ ہے(سورۃالنساء پارہ ٤ آیت ١١، ١٢)
لھذا زید کی بیوی کو وراثت سے حصہ دے دیا جاۓ۔ورنہ بصورت دیگر شرعی گرفت ہوگی!
 اب رہا یہ مسئلہ کہ زید کا لڑکا تویہ باپ کے مال میں حقدار ہوگا دادا کی جائداد میں سے حصے کا حقدار نہ ہوگا کیونکہ داداکی دیگر اولاد موجود ہیں اور اولاد کی موجودگی میں پوتا محروم ہوتاہے جیساکہ تکمیلہ میں ہے:"وقد ذکر الإمام أبوبکر جصاص الرازي رحمه اللّٰه في أحکام القرآن، والعلامة العیني في عمدة القاري: الإجماع علی أن الحفید لایرث مع الابن"
ترجمہ: حضرت امام ابوبکر جصاص رازی علیہ الرحمہ نے احکام القرآن میں اور حضرت علامہ عینی علیہ الرحمہ نے عمدۃالقاری میں فرمایا اس بات پر اجماع ہے کہ پوتا بیٹے کے ساتھ وارث نہیں بنےگا(تکملة فتح الملهم ج٢ ص١٨)
ہاں دادا اپنے یتیم پوتے کو وصیت کرکے اپنی جائداد کا مستحق بنا دے جبکہ وارثین نابالغ یا غیر موجود نہ ہوں. یا اپنی زندگی میں ہبہ کردے توپوتاپاسکتاہے یونہی چاچا اپنے مال میں سے چاہیں تو دے سکتے ہیں بلکہ بہتر ہے دینا،اللہ تبارک و تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ”وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیۡنُ فَارْزُقُوۡھمۡ مِّنْہُ وَقُوۡلُوۡا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا“
ترجمہ: پھر بانٹتے وقت اگر رشتہ دار اور یتیم اور مسکین آجائیں تو اس میں سے انہیں بھی کچھ دو اور ان سے اچھی بات کہو۔(پارہ ٤ سورۃ النساء، آیت ٨ ترجمئہ کنزالایمان)واللہ تعالٰی و رسولہ الاعلٰی اعلم بالصواب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم 
کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی
شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف انڈیا 
بتاریخ ٢٨ شوال المکرم ١٤٤٦ھ
بمطابق ٢٧اپریل٢٠٢٥ء
بروز ایک شنبہ (اتوار)

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only