منگل، 24 جون، 2025

(نذرانئہ عقیدت در بارگاہ سہروردیہ)

 (نذرانئہ عقیدت در بارگاہ سہروردیہ)

23ذوالحجہ 737 واں عرس مبارک
غوث العالم امام الاولیاء عمدۃالاصفیاء سلطان السالکین شیخ الاسلام والمسلمین حضرت سیدنا الشیخ صدرالدین عارف باللہ سہروردی ملتانی علیہ الرحمہ المتوفٰی ٢٣ ذی الحجہ ٧٠٩ھ ملتان شریف
 ناشر سہروردیہ سید محمد نذیر میاں سہروردی
آں بلند آوازہءعالم پناہ
سروردیں،افتخار صدرگاہ
صدر دین و دولت آں مقبول حق
نہ فلک از خوان جودش یک طبق
ملتان تیرے جلوؤں سے جنت نظیر یے
تیرا وجود عظمت برصغیر یے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برصغیر (ہند و پاک) کی سرزمین کو جن مشائخ کرام نے اپنے قدوم میمنت لزوم سے عظمت و شرف بخشا اور اس ظلمت کدہ خطہ میں اسلام کی شمع فروزاں کرکے دین اسلام کی نشر و اشاعت میں کلیدی کردار ادا کیا ان میں ایک نمایاں مقام ہمارے شیخ الاسلام والمسلین حضرت سیدنا الشیخ صدرالدین عارف باللہ سہروردی ملتانی علیہ الرحمہ کا ہے، آپ سلسلئہ عالیہ سہروردیہ کے ایک عظیم روحانی بزرگ ہیں،آپ نے اپنے علم و فضل اور اخلاق و کردار کے ذریعہ برصغیر (ہند و پاک) میں دین اسلام کی بے مثال خدمات جلیلہ انجام دی ہیں۔آپ اپنے والد محترم غوث العالمین سیدنا غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی علیہ الرحمہ کے نقش قدم پر چلتے ہوۓ اپنی پوری حیات مبارکہ اتباع رسالت تعلیم کتاب و حکمت اور تزکیہ نفوس میں گزاردی،آپ کی ذات والا ستودہ صفات کسی تعارف کی محتاج نہیں بلکہ عالم آشکارا ہے لیکن آپ کے ذکر میں کچھ ایسی حلاوت ہے جس سے قند مکرر کا لطف آتا ہے اس لیےاجمالی طور پر آپ کا تذکرہء پاک تحریر کیا جاتا ہے ملاحظہ فرمائیں!

ولادت باسعادت:
اللہ تبارک و تعالٰی نے غوث العٰلمین حضرت سیدنا غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی سہروردی علیہ الرحمہ کو سات فرزندوں اور دو صاحبزادیوں سے نوازا تھا۔ان میں سب سے بڑے فرزند ارجمند حضرت شیخ العارف صدرالدین عارف باللہ سہروردی علیہ الرحمہ ہیں،آپ 621ھ میں بی بی رشیدہ بانو کے بطن عفت سے پیدا ہوۓ،جو حضرت شیخ احمد غوث علیہ الرحمہ کی دختر اور حضرت مخدوم عبدالرشید حقانی قادری علیہ الرحمہ کی بہن تھیں،اس تقریب سعید پر ارادتمندوں نے بڑی خوشیاں منائیں،اور حضرت غوث العالمین علیہ الرحمہ نے ملتان شریف کے غربا و مساکین کے دامن زر و جواہر سے بھردیے،آپ کا پیدائشی نام محمد رکھا گیا اور  صدرالدین،عارف، مخدوم اور شیخ الاسلام جیسے القاب سے شہرت دوام ملی آپ کی کنیت ابوالمغانم ہے،سلسلئہ عالیہ سہروردیہ کے ایک معروف بزرگ حضرت شاہ رکن الدین والعالم ملتانی علیہ الرحمہ آپ ہی کے فرزند ارجمند ہیں۔اس وقت حضرت غوث العالمین کی جس قدر اولاد موجود ہے ان میں اکثر کا سلسلہ آپ پر ہی جاکر پیوستہ ہوتا ہے،حضرت شیخ العارف علوم ظاہری و باطنی اور کمالات صوری و معنوی کے جامع تھے سخاوت،شجاعت حلم اور نیک اخلاق میں اعلی مقام رکھتے تھے۔اپنے دور کے قطب اور مقتداۓزمانہ ہیں آپ اپنے والد ماجد کے بعد ان کے جانشین ہوۓ، آب کوثر کے مصنف لکھتے ہیں کہ غالباً ہندوستان میں موروثی سجادہ نشینی کی یہ پہلی اہم مثال ہے جس پر بعد میں اچ کے قادری پیروں نے بھی عمل کیا،ہندوستان کے مشائخ میں شاید سب سے پہلے آپ تھے،جنہیں حضرت شیخ ابن عربی علیہ الرحمہ کے نظریوں اور تصانیف کے متعلق اطلاع ملی۔(آب کوثر ص ٢٦٢)

تعلیم و تربیت:
صاحب انوار غوثیہ لکھتے ہیں حضرت صدرالدین عارف علیہ الرحمہ کی تعلیم و تربیت اپنے والد بزرگوار حضرت غوث بہاؤالدین زکریا علیہ الرحمہ کی زیرنگرانی میں ہوئی اور وہی آپ کے علوم ظاہری اور باطنی کے استاذ تھے جب استاذ ایسا سربرآوردہ روزگار ہو اور شاگرد ایسا باکمال ہو تو پھر لیاقت کا کیا کہنا۔تھوڑے ہی عرصہ میں حضرت صدرالدین عارف علم و فضل میں یگانئہ روزگار ہوۓ،اور قرآن مجید حفظ کرکے دینیات میں اعلی دستگاہ بہم پہنچائی۔چنانچہ اس وقت کوئی شخص علم و فضل میں آپ کا ہم پلہ نہ تھا۔جب علوم ظاہری سے فارغ ہوۓ تو اپنے والد بزرگوار جو آپ کے پیر و مرشد بھی تھے۔آپ کو علوم باطنی اور اسرار معرفت کی تعلیم شروع کی۔اور علم سلوک میں تھوڑی سی رہنمائی سے آپ عارفان زمانہ سے سبقت لے گۓ،اور کثرت مجاہدہ اور نور معرفت کے سبب آپ کا نام عارف مشہور ہوا چنانچہ جملہ کتب سیر و تواریخ میں آپ اسی نام سے مشہور ہیں(انوار غوثیہ ص ١٥٨)
عارف لقب کی وجہ تسمیہ:
جب آپ کلام مجید پڑھتے تو کمال غور و فکر مطالب پر کرتے اور جس وقت قرآت اور تلاوت میں مصروف ہوتے تو مطالب پر کمال غور و خوض فرماتے،انواع و اقسام کے انوار معانی سے آپ کا دل و دماغ منور ہو جاتا تھا،آپ کی ہمت ایسی عالی مقام تھی کہ اسباب دنیا میں سے کوئی چیز اپنے پاس نہ رکھتے تھے گویا وہ بحر معرفت کے غواص اور اسرار قدرت کے شناسا تھے یہی وجہ ہے کہ کثرت عرفان سے آپ کا لقب عارف مشہور ہوا(انوار غوثیہ ص ١٥٨، ١٥٩)

سارا اثاثہ راہ خدا میں لٹا دیا:

حضرت شیخ الاسلام سیدنا غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی علیہ الرحمہ کے وصال کے بعد جب خاندان سہروردیہ کے جلیل القدر بزرگوں اور اپنے خانوادہ کے اکابرین نے دستار غوثیت آپ کو باندھی اور آپ ارشاد و ہدایت پر متمکن ہوۓ،تو آپ کے والد بزرگوار کا تمام ترکہ بموجب شرع شریف جملہ مستحقین میں تقسیم کر دیا خزینۃالاصفیاء کے بموجب ستر لاکھ اشرفی نقد ماسواۓدیگر اسباب از قسم ظروف پارچہ جات مکانات وغیرہ حضرت غوث العالمین سیدنا غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی علیہ الرحمہ کے ہر صاحبزادے کے حصے میں آۓ تھے مگر شیخ الاسلام حضرت صدرالدین عارف علیہ الرحمہ نے اول روز ہی تمام زر و نقد تمام فقرا مساکین اور اہل حاجت پر ایثار فرمایا اور ایک درم بھی اپنے واسطے نہ رکھا۔جب کسی نے آپ سے سوال کیا کہ غریب نواز ! آپ کے والد بزرگوار کے پاس تو ہزاروں روپے خزانے میں جمع رہتے تھے اور حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا خرچ فرماتے تھے،کیا سبب ہے کہ آپ نے تمام روپیہ ایک ہی دن میں خیرات کر ڈالا اور خزانہ میں کچھ نہیں رکھا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میرے والد بزرگوار ہمیشہ دنیا پر غالب رہے اس واسطے مال و زر کی موجودگی ان کو کوئی ضرر و نقصان نہ پہنچا سکتی تھی۔ میں بھی بفضلہ تعالٰی اکثر دنیا پر غالب رہتا ہوں۔مگر کبھی مساوات کا درجہ ہوجاتا ہے اس واسطے مجھے خوف ہے کہ اس کی صحبت مجھے نقصان نہ پہنچاۓ بموجب
"حب الدنیا راس کل خطیۃ اور حب المال یفسد المال"
ترجمہ: مال کی محبت ہر غلطی کا سبب ہے اور مال کی محبت اخروی زندگی کو تباہ کر دیتی ہے،پس مجھے اب آزادی حاصل ہے کہ مبادا کبھی یہ مجھ پر غالب آجاۓ.( انوار غوثیہ ص ١٥٩)

رشد و ہدایت:

مؤرخ اسلام جناب نوراحمد خاں فریدی علیہ الرحمہ رقمطراز ہیں کہ تبلیغ اسلام اصلاح اعمال اور تزکیہ نفس کے جو خطوط حضرت شیخ الاسلام غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی علیہ الرحمہ قائم کرگۓ تھے۔حضرت صدرالدین عارف باللہ نے اس عمدگی سے قائم رکھا کہ دنیا عش عش کر اٹھی اور ہر شخص کے دل پر آپ کی عظمت جلالت کا سکہ بیٹھ گیا۔
آپ نے اپنے والد ماجد کی خانقاہ کے شرف و مجد کو برابر قائم رکھا اور اکابر مشائخ و فقرا جو اس آستانے کی زینت تھے یعنی سیدالسادات حضرت سید جلال الدین بخاری۔مولانا فخرالدین عراقی میر حسینی،سلطان التارکین حمیدالدین حاکم،خواجہ حسن افغان علیہم الرحمہ سب کے سب حضرت شیخ العارف کے انیس و جلیس بنے رہے دوسرے لفظوں میں ہم کہ سکتے ہیں کہ شیخ العارف کی ہمہ گیر شخصیت نے انہیں ملتان سے جانے نہ دیا۔اور اکابر اہل اللہ کی آمد کا سلسلہ جوں کا توں قائم رہا،حضرت عارف باللہ کا یوم انضباط اوقات بھی وہی تھا جس پر حضرت شیخ الاسلام حضرت غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی علیہ الرحمہ زندگی بھر عمل پیرا رہے۔اور اوراد و اذکار کے بعد مسند ارشاد پر بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے۔بقول حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سہروردی حضرت شیخ العارف مبتدی منتہی کو بلا کسی امتیاز تعلیم دیتے تھے۔عصر کی نماز کے بعد بلا ناغہ حضرت شیخ العارف اپنے والد ماجد کے منبر پر بیٹھ کر وعظ فرماتے جو اکثر قرآن مجید کے اسرار و معارف پر مشتمل ہوتا۔
آپ کی کیمیا اثر صحبت اور تربیت سے بہت سے ارباب کمال پیدا ہوۓ اور ہزارہا لوگ آپ کے حلقئہ ارادت میں شامل ہوۓ۔آپ نے خاندان سہروردیہ کی عظمت و تقدیس کو برصغیر میں پوری شان و شوکت کے ساتھ قائم رکھا۔(تذکرہ مشائخ سہروردیہ قلندریہ ص ١٥٢,  ١٥٣)

شیخ العارف کا مقام:

صاحب بزم صوفیہ لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ صدرالدین عارف باللہ علیہ الرحمہ حضرت شیخ غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی نوراللہ مرقدہ کے فرزند ارجمند تھے۔والد بزرگوار کی صحبت میں عقلی اور روحانی تعلیم پائی تھی اسی تعلیم کی بدولت اپنے زمانہ میں سر حلقئہ اولیا سمجھے جاتے تھےان کے والد بزرگوار کے ایک مرید حضرت میر حسینی سادات علیہ الرحمہ نے آپ کے روحانی مرتبہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے!
آں بلند آوازہءعالم پناہ
سروردیں،افتخار صدرگاہ
صدر دین و دولت آں مقبول حق
نہ فلک از خوان جودش یک طبق
آب حیوان قطرہءبحر دلش
چوں خضر علم لدنی حاصلش
معتبر چوں قول او افعال او
ہم بیان او گواہ حال او
مقتداۓدین قبول خاص و عام
دولتش گفتہ توئی خیرالانام
ملک معنی جمع در فرمان او
ہم بکسب وہم بمیراث آن او
ان کے علاوہ حضرت مولانا جمالی اور دیگر اکابرین نے بھی آپ کے مناقب و محامد میں بہت سے کلام تحریر کیے ہیں جن کی یہاں گنجائش نہیں(تذکرہ صدرالدین عارف ج ١ ص ٢١)

تصرفات شیخ العارف:

سیرالعارفین میں حضرت مولانا جمالی سہروردی علیہ الرحمہ نے لکھا ہے کہ حضرت شیخ رکن الدین فردوسی علیہ الرحمہ جو ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں اور جو بجاۓ خود شیخ الکل اور شیخ نجیب الدین فردوسی علیہ الرحمہ کے پیر و مرشد اور حضرت مخدوم یحیی منیری فردوسی علیہ الرحمہ کے دادا پیر ہیں،روایت ہے کہ "جب میں دہلی کی طرف جا رہا تھا ۔تو میرا گزر شہر ملتان دارالامن والامان میں ہوا اور میں خانقاہ غوثیہ میں حضرت شیخ صدرالدین عارف ملتانی کا مہمان ہوا کہ چاندنی رات تھی اس وقت آپ کے ہاں علما مشائخ کی بڑی تعداد جمع تھی جب کھانے وقت ہوا تو شیخ العارف نے دسترخوان طلب فرمایا۔تو ایسا پرتکلف دستخوان بچھایا گیا کہ بادشاہوں کے ہاں کیا ہوگا،بہت سے بزرگ دسترخوان پر تھے۔خود شیخ العارف کے سامنے قسم قسم کے طعام رکھے تھے۔مجھے پابندی میں من اکل مع المغفور فھو مغفور شریک ہونا پڑا لیکن میں نے ارادہ کر لیا کہ بہت تھوڑا کھانا چاہیےکیوں کہ میں اس دن ایام بیض کے روزہ سے تھا اور سفر میں روزہ افطار کرنا اپنے اختیار میں ہے،میں نے دیکھا کہ شیخ ہر قسم کا کھانا نہایت شوق سے کھاتے ہیں۔جب کم کھانے کا خیال میرے دل میں آیا تو فوراً ہی آپ نے فرمایا "اے درویش رکن الدین! جو شخص حرارت باطن سے طعام کو نور بناکر حق تک پہنچا سکتا ہے اس کے لیے تقلیل غذا کی پابندی ضروری نہیں!"
مولانا رومی فرماتے ہیں:"چونکہ لقمہ می شود در تو گہر،بالیقیں چندا نکہ می دانی بخور
ترجمہ: جب کہ موتی تجھ میں بن جاۓ طعام جتنا بھی تو چاہے کھا مالا کلام
اگرچہ شیخ العارف خود کم غذا لیتے تھے لیکن دسترخوان سے اس لیے ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔کہ ان کو دیکھ کر کہیں مہمان ہاتھ نہ روک لیں اور کوئی بھوکا نہ رہ جاۓ.(انوار غوثیہ ص ١٧٢، ١٧٣)

خطئہ بدایوں میں ایک پاک سرزمین:
حضرت شیخ حسام الدین ملتانی سہروردی علیہ الرحمہ کا مزار بدایوں میں ہے اور یہ آپ کے مریدین کامل میں سے ہیں۔ان کی حکایت حضرت نظام الدین اولیا محبوب الہی علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب فوائدالفواد میں تحریر کی ہے۔حضرت مولانا حسام الدین صاحب فرماتے ہیں جن دنوں میں ملتان شریف میں حضرت شیخ المشائخ صدرالدین عارف باللہ کی خدمت میں حاضر تھا۔آپ زیارت روضئہ منورہ حضرت غوث العالم سے فارغ ہوکر باہر تشریف لاۓ۔میرے دل میں خیال آیا کہ ایک ٹکڑا زمین کا اپنی قبر کے لیے مانگ لوں شاید خداوند کریم ان کی ہمسائگی سے مجھے بخش دے۔جب یہ ارادہ میرے دل میں ہوا تو آپ نے خود بخود فرمایا میاں حسام الدین ایک قبر کی جگہ آپ کو دینی ہمارے واسطے چنداں مشکل نہیں ہے اور نہ عذر ہے۔لیکن حضرت رسالت پناہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم نے ایک پاک زمین تمہارے واسطے خطئہ بدایوں میں تجویز فرمائی آپ کا مدفن اسی جگہ ہوگا۔
شیخ المشائخ حضرت نظام الدین اولیا محبوب الہی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ ایک رات مولانا حسام الدین علیہ الرحمہ نے خواب دیکھا کہ ایک جگہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم وضو فرما رہے ہیں۔صبح اٹھے تو ایک جگہ زمین تر دیکھی اور پانی کا نشان موجود پایا ارشاد فرمایا کہ میرا مدفن اسی جگہ پر ہوگا چنانچہ اسی جگہ آپ کو دفن کیا گیا.(انوار غوثیہ ص ١٧٣)

ہرنی دوڑتی چلی آئی:

صاحب خزینۃالاصفیاء لکھتے ہیں کہ ایک روز حضرت شیخ صدرالملت والدین علیہ الرحمہ دریا کے کنارے وضو کر رہے تھےآپ کے سات سالہ بیٹے حضرت شیخ رکن الدین ابوالفتح بھی آپ کے ساتھ تھے۔اچانک صحرا کی طرف سے ہرنوں کا ایک گلہ نمودار ہوا۔ان میں ایک ہرنی کا بہت خوبصورت بچہ تھا۔حضرت شیخ رکن الدین کی طبیعت اس بچہ کی طرف مائل ہوگئ۔اسے پکڑنا چاہا لیکن اپنے والد کی ڈانٹ کے ڈر سے ہمت نہ کی۔جب شیخ وضو سے فارغ ہوکر دریا کے کنارے بیٹھے حضرت رکن الدین کو بھی اپنے پاس بیٹھا لیا۔اور قرآن شریف سکھانے لگے۔حضرت کی ہر روز کی عادت تھی کہ اپنے صاحبزادے کو دریا کے کنارے لے جاتے اور قرآن شریف کا ایک سیپارہ چار مرتبہ حفظ کراتے۔اس روز آپ نے آٹھ بار پڑھایا  حفظ نہ ہوا شیخ نے صورت حال پوچھی تو حاضرین نے عرض کی کہ آج ایک ہرنی کا بچہ دوسری ہرنیوں کے ساتھ اس راستہ سے گزرا ہے برخوردار دیر تک اس کی طرف متوجہ رہے ہیں۔ہو سکتا ہے آپ کی توجہ مبارک ابھی تک ادھر ہی ہو شیخ نے اب اپنے فرزند دلبند سے فرمایا"بابا بتاؤ کہ ہرن کس طرف کو گۓ ہیں"؟ عرض کی "دریا سے مغرب کی جانب گۓ ہیں" میں نے انہیں جاتے دیکھا ہے۔ان کے ساتھ ایک خوبصورت بچہ تھا" حضرت شیخ زمانی نے توجہ فرمائی۔اس کے بعد سر اٹھایا تو لوگوں نے دیکھا کہ ہرنی اپنے بچہ کے ساتھ صحرا کی طرف سے دوڑتی چلی آ رہی ہے۔وہ شیخ کے سامنے آکر کھڑی ہوگئ۔حضرت شیخ رکن الدین نے بچہ کو گود میں اٹھالیا۔اب ان کے دل نے تسلی پائی۔اب انہوں نے اسی دن کلام اللہ کے دو سیپارے حفظ کیے۔بچہ اور ہرنی دونوں کو اپنے ساتھ خانقاہ لے گۓ۔(خزینۃالاصفیا مخزن چہارم ص ٥٣، ٥٤)

آپ کی دعا سے قطب بہرام کو بیٹا عطا ہوا:

حضرت شیخ سماءالحق والدین علیہ الرحمہ جو حضرت شیخ جمالی علیہ الرحمہ کے مرشد ہیں اور ایک کامل بزرگ ہو گزرے ہیں اور جن کا مقبرہ کہنہ دہلی میں ہے،روایت ہے کہ میرے والد مولانا قطب بہرام عرصہ دراز تک لاولد رہے حتی کہ عالم پیری (بڑھاپا)جلوہ گر ہوا۔قرآن مجید کے حافظ تھے اور ان کا معمول تھا کہ ہر جمعرات کو حضرت غوث العالم غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی علیہ الرحمہ اور صدرالملت والدین حضرت مخدوم صدرالدین عارف علیہ الرحمہ کے مزار پرانوار پر جاکر زیارت کرتے اور قرآن مجید ختم کرکے اس کا ثواب دونوں بزرگوں کی ارواح کو پہنچاتے۔دل میں تمنا تھی کہ خداوند کریم کوئی فرزند عطا کرے۔ایک مرتبہ شب جمعہ کو بعد ختم قرآن انہیں غندگی سے آگئ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت مخدومی شیخ صدرالدین عارف نے دو چھوہارے عطا فرماۓ۔اور فرمایا کہ قطب الدین! یہ دو چھوہارے ہیں ایک آپ کھاؤ اور دوسرا اپنی منکوحہ کو کھلاؤ ان شآءاللہ تعالٰی بارگاہ الہی سے فرزند عطا ہوگا اس خواب کو دیکھنے کے بعد جب میں مقبرہ سے باہر نکلا تو ایک بزرگ نورانی صورت نے دو چھوہارے مجھے عطا فرماۓ میں خوش خوش اپنے گھر آیا اور ایک چھوہارا خود کھایا اور دوسرا اہل پردہ کو کھلایا خداوند کریم نے مجھے میوہ کھانے سے خاص میوہ یعنی بیٹا عطا فرمایا:"ذٰلِكَ فَضْلُ اللّـٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ ۚ "حضرت شیخ العارف کو اس قدر اپنے والد بزرگوار سے تعلق روحانی تھا کہ ان کی وصال کے بعد جب آپ کسی کو خرقہ عطا کرنا چاہتے تو پہلے استخارہ فرماتے اور جب حضرت غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی علیہ الرحمہ کے روضئہ پاک سے اجازت ملتی کہ ہاں فلاں شخص کو خرقہ عطا کرکے اپنا مجاز بناؤ تو اس وقت آپ اجازت عطا کرتے ورنہ خاموش رہتے (انوار غوثیہ ص١٨١، ١٨٢)

حضرت مولانا جامی نقشبندی کا خواب:

حضرت مولانا جمالی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ اثناۓ سیر و سیاحت میں جب میرا گزر ہیرات میں ہوا۔تو منجملہ دوسرے مشائخ کے یہاں میری ملاقات حضرت مولانا نورالدین عبدرالحمن جامی سے بھی ہوئی تھی انہیں مل کر میں بہت خوش ہوا ایک دن میں ان کے حجرہءخاص میں بیٹھا تھا اور کتاب لمعات میرے اور ان کے درمیان رکھی ہوئی تھی۔مولانا جامی نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا۔دیکھیے حضرت محی الدین عربی کا فیض!میں نے کہا ہر شخص کا مرتبہ جس ذریعے سے اسے عطا ہوا ہے۔اللہ تبارک و تعالٰی کے دربار میں مخفی نہیں ہے۔میرے خیال میں یہ فیض کسی اور بزرگ کا ہے۔یہ بات اس وقت رفت و گذشت ہوگئ۔دوسرے دن صبح کو جب مولانا جامی بیدار ہوۓ تو انہوں نے مجھ کو آواز دیکر بلایا۔اور کہا دوست ذرا رات کا خواب سن لو!کہنے لگےخواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت صدرالدین عارف باللہ فرزند دلبند حضرت شیخ الاسلام بہاءالدین زکریا قدس اللہ اسرارھم اپنے درویشوں کی جماعت میں بیٹھے ہیں۔اور مولانا عراقی آپ کی نعلین اٹھاۓ ادب سے استادہ ہیں۔اور مجھے اشارہ کرتے ہیں کہ تم بھی اس مجلس میں آجاؤ چنانچہ میں آگے بڑھا اور حضرت شیخ صدرالدین عارف کی دست بوسی سے مشرف ہوا۔پھر مولانا جامی نے میرے طرف رخ کیا اور فرمایا۔
اے جمالی! اس وقت آپ نے کہا کیوں صاحب!
شیخ صدرالدین عارف کا مقام و مرتبہ دیکھا۔۔۔!
میں نے جواب دیا بے شک آپ سچ کہتے ہیں!( تذکرہ صدرالدین عارف ج ١ص ١١٦، تا ١١٨)

مردہ زندہ ہو گیا:

آفتاب سلسلئہ عالیہ سہرودیہ خلیفئہ شاہ رکن عالم حضرت سید مخدوم جہانیاں جہاں گشت سہروردی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ایک دفعہ شیخ العارف باللہ صدرالحق والدین
اوراد و وظائف میں مصروف تھے کہ پڑوس سے رونے پٹنے کی آواز آئی آپ نے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ لوگوں نے عرض کی "ایک بڑھیا کا ایک لوتا بیٹا مر گیا ہےاور وہ زار زار رو رہی ہے" آواز میں اس قدر درد تھا کہ حضرت آبدیدہ ہوگۓ جوان کی لاش ایک چار پائی پررکھی ہوئی تھی بڑھیا اور دوسرے متعلقین کے شور و شیون سے ایک قیامت برپا تھی حضرت اس نوجوان کے قریب پہنچےاور بے تحاشا فرمایا "یا حی یا قیوم! قم باذن اللہ" جوان اٹھ بیٹھا حیرت سے ادھر ادھر نظر دوڑا کر بولا یہ کیا اسرار ہے  میں تو مر چکا تھا اور میں نے سکرات کی تلخی بھی چکھی ہے زندہ کیسے ہو گیا ؟ جوان کی بڑھیا ماں نے یہ اعجاز دیکھا تو مبہوت ہوکر رہ گئ اسے یقین نہیں آتا تھا روتی بھی تھی اور ہنستی بھی تھی آنکھوں سے خوشی کے آنسو رواں تھے اور چہرہ شادمانی اور مسرت سے کھلا جا رہا تھا بچے کےسر اور آنکھوں پر بوسہ دیا پھر اسے شیخ کے قدموں میں لاڈالا اور خود بھی بار بار حضرت کی خاک پا کو سرمہ بناتی اور نعلین مبارک کو پیار دیتی تھی شیخ العارف نے جوان سے مخاطب ہو کر فرمایا ارے تو بےہوش ہو گیا تھا چپ رہ کچھ مت کہ!حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت سہروردی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ شیخ العارف کا یہ اعجاز"سرقدر" اور اس کا تصرف ہے,ارشاد کرتے ہیں کہ وہ جوان بڑھا ہوا اور ابھی مرا ہے اور جب وہ یاروں میں ہوتا ان سے کہتا کہ میں مر گیا تھا اور میں نے سکرات کی تلخی بھی چکھی ہےشیخ کی ولایت سے زندہ ہوا.(تذکرہ صدرالدین عارف ج ١ ص ٦٨,٦٧)

ارجعی الی ربک:

حضرت شیخ الاسلام شیخ العارف سیدنا صدرالدین عارف باللہ سہروردی علیہ الرحمہ کا وصال باکمال ٢٣ ذوالحجہ ٧٠٩ھ میں ہوا،اس وقت قطب الاعظم مخدوم زادہ حضرت شاہ رکن عالم کی عمر ٣٦ سال کی تھی۔آپ نے نہایت صبر و استقلال سے اس واقعئہ عظیمہ کو برداشت کیا۔اور بموجب وصیت آپ کے جسد انور کو ان کو پدر بزرگوار غوث العالمین غوث بہاؤالدین زکریا ملتانی علیہ الرحمہ کے پہلو میں دفن کیا۔جنازہ کی نماز خود آپ نے پڑھائی اور ہزاروں آدمی جنازہ میں شریک ہوۓ،معتقدین اور مریدین کا جم غفیر تھا جو اس آفتاب جہاں تاب کے پنہاں ہوجانے سے ماہی بے آب کی طرح بےقرار تھے مگر ان کی تسلی کے واسطے یہ مقولہ آب حیات کا کام دے رہا تھا
"أَلا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ"
مندرجہ ذیل تاریخ سے سن وفات نکلتا ہے جو جامع السلاسل سے لیا گیا ہے چنانچہ وہی الفاظ بجنسہ نقل کیے جاتے ہیں۔ نوراللہ مرقدہ
شیخ عارف خطاب اوست
وعالم بود باعمل و دانش ورے کامل
وفاتش اوشاں در سال ہفت صد دودنہ ہجری
کہ "باصدر دین عارف" درشمار است برابر است
٧٠٩ھ
تذکرہء ملتان سے بھی اس روایت کی توثیق ہوتی ہے چنانچہ لکھتے ہیں کہ : وفاتش بست و سیوم ماہ ذی الحج سال ہفصد و نہ ہجری و قبرہ مع قبر ابیہ الی آخرہ
حضرت حافظ علیہ الرحمہ نے بھی آپ سن وصال ٧٠٩ لکھا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں!
شیخ صدر دین عارف پادشاہ
چوں نداۓ ارجعی از حق شنید
رخت بست آں از فنا سوۓ بقا
باپدر پیش خدا کردہ قعود
از براۓسال وصل آں ولی
گفت حافظ صدر دیں آل شہود
٧٠٩ھ
(تذکرہ صدرالدین عارف علیہ الرحمہ ج ١ ص ٢٨٤)
*ضریح مقدس:*
حضرت شیخ العارف کی زندگی کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ غوث الاغواث کے بیٹے تھے۔غوث کی گود میں پلے پوسے،اور ان کی توجہ کے فیضان سے ایک ہی جست میں معرفت کی تمام منزلیں طے کرگۓ عمر بھر کا بیشتر حصہ اسی نائب رسول علیہ الصلوۃوالتسلیم کے قدموں میں بسرا ہوا۔جب وہ رفیق اعلی کو لبیک کہ گۓ تو کہ ان کا سجادہ اس شان سے سنبھالا کہ دوست دشمن سب عش عش کراٹھے بقیہ زندگی جلیل القدر باپ اور عظیم الشان مرشد کے مزار نوربار کی مجاورت اور ان کے مشن کی تکمیل میں ختم کرکے ان کے پہلو میں جالیٹے حضرت غوث العالمین کے چھ اور بھی صاحبزادے تھے اور وہ بڑے عالم فاضل تھے ہوسکتا ہے کہ ان کی قبریں بھی اسی قبہ کے نیچے ہوں ممکن ہے کہ باہر دفن ہوں یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔لیکن یہ شیخ العارف کا ہی مقام ہے کہ زندگی بھر ایک لحظہ کے لیے بھی آپ قبلہ و کعبہ سے جدا نہ ہوۓ۔اور جب جان "جان آفریں" کے سپرد کی تو پھر والد ماجد کے ساتھ ایک ہی کٹہرے میں پہلو بہ پہلو اس شان سے سوۓ کہ قیامت تک کوئی اٹھا نہ سکے اور نہ کوئی جدا کرسکے جن لوگوں کی چشم تصور کام کرتی ہے وہ دیکھتے ہیں کہ حضرت غوث العالمین اور شیخ العارف ایک ہی سائبان کے نیچے تشریف فرما ہیں۔اور حضرت معمول کے مطابق اپنے فرزند ارجمند سے مصروف گفتگو ہیں۔آنکھوں والوں کا یہ کہنا ہی کیا ہے وہ سچ مچ آپ کے دربار میں حاضری دیتے اور اپنا نصیبہ وصول کرتے ہیں اسی ملتان شریف میں کئ بخت بیدار ہر رات اور کئ شب جمعہ اور کئ اعراس کی تقریب پر باریابی کا شرف حاصل کرتے ہیں۔آپ کا قبئہ ابیض کئ میلوں کی دوری سے گردن نکالے اپنے ارادت مندوں کو خوش آمدید کہتا دکھائی دیتا ہے زائرین اسٹیشن ہی سے اس فلک رفعت مقبرہ کی زیارت کر لیتے ہیں۔شوق دید کا یہ عالم ہوتا ہے کہ پل نہ گزرے اور حضور کی جناب میں پہنچ جاۓ،زمانہ ادلتا بدلتا رہےگا لیکن آپ کا قبئہ ابیض اسی طرح ہر خاص و عام خراج عقیدت وصول کرتا رہےگا!
حضرت غوث العالمین کا 5 تا 7 صفر اور حضرت شیخ العارف کا 23 ذی الحجہ کو عرس ہوتا ہے پاکستان کے طول و عرض سے علما اور مشائخ مدعو کیے جاتے ہیں جو قال اللہ و قال الرسول سے متلاشیان حق کے دلوں کو گرماتے ہیں۔اس مبارک تقریب میں اکناف عالم سے جو ارواح صادقہ یہاں جمع ہوتی ہیں ان میں ابدال بھی ہوتے ہیں اور اوتاد بھی اور وہ اپنی نشست و برخواست اوراد و اذکار کے طور طریقوں سے پہنچانے جاسکتا ہیں لیکن ارادت کی نظر شرط ہے حکیم الامت نے کیا خوب کہا ہے
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں
ملتان تیرے جلوؤں سے جنت نظیر یے
تیرا وجود عظمت برصغیر یے
(تذکرہ صدرالدین عارف ج ١ ص ٢٥٣، ٢٥٤ )
*خلفاۓنامدار:*
حضرت شیخ العارف صدرالدین عارف باللہ سہروردی ملتانی علیہ الرحمہ کے مریدین و خلفا  کی تعداد کثیر ہے،چند مشہور و معروف خلفاۓکرام کے اسماۓگرامی یہاں لکھے جاتے ہیں۔جو آسمان ولایت کے درخشندہ ستارے ہیں،حضرت شاہ رکن الدین والعالم ملتانی سہروردی جو آپ کے فرزند و جانشین ہیں حضرت شیخ اسماعیل عمادالدین شہید سہروردی یہ بھی آپ کے فرزند دلبند ہیں۔علاوہ ازیں حضرت سید احمد کبیر سہروردی بخاری حضرت شیخ جمال الدین خنداں رو سہروردی حضرت سلیمان دانا سہروردی حضرت شیخ احمد معشوق سہروردی حضرت شیخ صلاح الدین درویش سیاح سہروردی حضرت شیخ علاؤالدین سہروردی حضرت شیخ حسام الدین ملتانی سہروردی علیہم الرحمہ ان خلفاۓکرام نے آپ کی بارگاہ عالیہ سے تعلیم و تربیت پاکر عالم کے اطراف و اکناف میں رشد و ہدایت کا کام بخوبی انجام دیا۔اور لوگوں کو ان کی منزل مقصود تک پہنچایا۔اور آپ کے فیوض و برکات کو عام و تام کرکے آسودہ خاک ہوۓ۔جن کے آستانے آج بھی بفضلہ تعالٰی عقیدت و محبت کے مرکز ہیں!
*اقوال مبارکہ:*
اللہ عز و جل جب کسی بندے کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہےتو اس بندہ کو سعید لکھ دیتا ہے اور پھر اسے زبان کے ذکر کے ساتھ قلب کی موافقت کی توفیق عطا فرماتا ہے۔اور پھر اسے زبان کے ذکر سے قلب کے ذکر کی جانب ترقی دیتا ہے یہاں تک کہ اگر اس کی زبان ذکر سے خاموش ہو بھی جاۓ تو اس کے قلب سے ذکر جاری رہتا ہے!
بندے کی کوئی سانس ذکر سے باہر نہیں نکلنی چاہیے بزرگوں نے کہا ہے جو انسان ذکر کے بغیر سانس لیتا ہے وہ اپنا حال ضائع کرتا ہے!
طریقت ظاہری یہ ہے کہ بندہ خوف اور امید سواۓ خدا کے کسی سے نہ رکھے!
انسان کے دل میں نہ تو جنت کی آرزو ہو اور نہ ہی دوزخ کا خوف صرف اللہ ہی اللہ ہو!
تمام عالم اسی کا پیداکردہ ہے اس میں چوں و چراں کی گنجائش نہیں نہ وہ خود کسی شے سے مشابہ ہے!
اتباع حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم میں اللہ عز وجل کے حکم کو جانو اور اس کی کہنہ اور کیفیت کو معلوم کرنے کی کوشش نہ کرو!
ایمان کے استقامت کی علامت یہ ہے کہ بندے کو از روۓ ذوق و حال کے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم محبوب ہوں نہ کہ علم!
وسوسہ اور حدیث نفس ذکر کے نور سے جل جاتے ہیں!
ذکر زبان سے قلب کی موفقت پیدا کر!
زبان بے شک ذکر سے خاموش ہو جاۓ دل خاموش نہیں ہونا چاہیے!
تفرید باطن یہ ہے کہ قلب شیطانی وساوس اور نفسانی خواہشات سے پاک ہوجاۓ اور اس میں نور کے ذکر کا جوہر نمایاں ہو جاۓ!
اعضا و جوارح کو شرعی ممنوعات سے قولاً و فعلاً باز رکھنا چاہیے!
مجلس سے پرہیز لازم ہے اور یہاں مجلس سے مراد ایسی مجلس ہے جو حق تعالٰی سے برگشتہ کرکے دنیا کی طرف مائل کرتی ہے!
بطالوں سے بھی احتراز ضروری ہے۔بطال وہ لوگ ہیں جو طالب حق نہیں!
زندگی کی مشکلات و مصائب سے بخیر و خوبی نکلنا چاہتے ہو تو گناہ اپنے دامن سے جھٹک دو!
نفس کو رام کرنے کے لیے شریعت اور نیکی کا تازیانہ استعمال کرو!
اعتقاد بالیقین سے تمام منازل فقرا باآسانی طے ہو جاتی ہیں!
رزق وہی ملتا ہے جو مقدر ہو چکا ہے اس سے زائد کی طلب حماقت ہے اور اس کو چھیننے کی قوت ماسوا اللہ عزوجل کوئی بھی نہیں رکھتا.(اقوال اولیا ص ٢٧٧, ٢٧٨)
طالب دعا: غلامان آستانئہ عالیہ سہروردیہ غوثیہ داہود شریف گجرات انڈیا

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only