(کافر نکاح کےلئے ایمان لایاتومسلمہ سے نکاح کرسکتاہے؟)
(السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل میں کہ ایک غیر مسلم لڑکا جو ظاہری طور پر کچھ دن کے لیے ایمان لائے ایک مسلم لڑکی سے نکاح کرنے کے لیے تو ایسا نکاح پڑھانا کیسا ہے جبکہ وہ اسی وقت اسی مولانا کے پاس اسلام قبول کرے اور پھر اسی وقت نکاح کرے ایسا نکاح پڑھانا درست ہوگا ؟ نکاح کے وقت دونوں گواہان لڑکی کے والد اور بھائی ہو تو نکاح درست ہوگا کہ نہیں ،اور بغیر وکیل کے نکاح منعقد ہوگا یا نہیں؟ جواب سے نوازیں کرم ہوگا
المستفتی ۔ محمد عارفین رضوی پونہ
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب وھو الموفق للحق والصواب
بر صدق مستفتی صورت مسئولہ میں جیسا کہ بیان کیا گیا اگر واقعی ایسا ہے کہ وہ غیر مسلم مولانا صاحب کے پاس کچھ دن کے لئے مسلم لڑکی سے شادی کرنے کے لئے ایمان لایا ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ وہ ایمان لایا ہی نہیں ہے کیونکہ ایمان کی تعریف ہی یہی ہے وہ امور جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی جانب سے لے کر آئے ان سب کی دل سے تصدیق کرنا اور زبان سے ان تمام امور کا اعتراف و اقرار کرنا ، لہذا جب وہ کچھ دن کے لئے ایمان لایا ہے جیسا کہ سائل کے سوال سے ظاہر ہے تو گویا کہ وہ دل سے ایمان نہیں لایا جب وہ ایمان لایا ہی نہیں ہے تو پھر اس کا نکاح ایک مسلم لڑکی سے باطل ہے ،
نیز اگر اس بات کا علم نکاح پڑھانے والے اور اس میں شرکت کرنے والے افراد کو ہو تو وہ سب لوگ حرام کے مرتکب ہو کر مستحق نار و موجب غضب جبار ہونگے ،
ایمان کی تعریف کرتے ہوئے امام سعد الدین تفتازانی فرماتے ہیں "فاعلم ان الایمان فی الشرع ھو التصدیق بما جاء بہ من عند اللہ تعالیٰ ایک تصدیق النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالقلب فی جمیع ما علم بالضرورۃ مجیئہ بہ من عند للہ تعالیٰ اجمالا ، والاقرار بہ ای باللسان الا ان التصدیق رکن لا یحتمل السقوط اصلا ، ومن اقر بلسانہ ولم یصدق بقلبہ کالمنافق "(شرح عقائد نسفی ، ص 114 ، مطبوعہ دار احیاء التراث بیروت لبنان)
ترجمہ :شرع میں ایمان ان باتوں کی تصدیق کرنا ہے جو آپ اللہ کے پاس سے لائے یعنی ان تمام باتوں میں دل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجمالی طور پر تصدیق کرنا ہے جن کو آپ کا اللہ کے پاس سے لانا یقینی طور پر معلوم ہے، اور دوسرا رکن زبان سے اقرار کرنا مگر یہ بات ہے کہ تصدیق ایسا رکن ہے جو کسی حال میں ساقط ہونے کا احتمال نہیں رکھتا، جس نے زبان سے اقرار کیا اور دل سے تصدیق نہیں کی تو وہ منافق ہے۔
جو مسلمان نہ اس کا نکاح مسلم سے نہیں ہو سکتا جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے "وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْاؕ-وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكُمْ"(پارہ 2، سورۂ البقرہ ، آیت نمبر 221)
ترجمۂ کنز الایمان:اور مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں اور بیشک مسلمان غلام مشرک سے اچھا اگرچہ وہ تمہیں بھاتا ہو ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:" إسلامه أن یأتي بکلمة الشهادۃ ویتبرأ عن الأدیان کلها سوی الإسلام"(لفتاویٰ الهندیة، جلد دوم ، کتاب السیر، الباب التاسع في أحکام المرتدین، ص 277، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
ترجمہ ۔:مسلمان ہونے کا مطلب یہ ہے کلمۂ شہادت پڑھے اور اسلام کے علاوہ تمام دینوں سے برأت کا اظہار کرے۔
نیز از روئے شرع بغیر وکیل کے بھی نکاح درست ہوجاتا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
محمد ایاز حسین تسلیمی
ساکن ۔ محلہ ٹاندہ متصل مسجد مدار اعظم بہیڑی ضلع بریلی شریف ۔
بتاریخ ۔ 2025...8
ایک تبصرہ شائع کریں