(کھڑے ہوکر پانی پینا کیساہے؟)
(الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ کھڑے ہو کر پانی پینا کیسا ہے اور اس حدیث کے اعتبار سے رہنمائی فرمائیں ۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ النَّزَّالِ ، قَالَ : أَتَى عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى بَابِ الرَّحَبَةِ فَشَرِبَ قَائِمًا ، فَقَالَ إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُ أَحَدُهُمْ أَنْ يَشْرَبَ وَهُوَ قَائِمٌ ، وَإِنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ كَمَا رَأَيْتُمُونِي فَعَلْتُ. (بخاری شریف حدیث نمبر 5615)
ترجمہ، وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں مسجد کوفہ کے صحن میں حاضر ہوئے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا اور کہا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ سمجھتے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے جس طرح تم نے مجھے اس وقت کھڑے ہو کر پانی پیتے دیکھا ہے۔
المستفتی: عبد الواحد قادری نعمانی، مدھوپور، ضلع دیوگھر جھارکھنڈ
باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب: وضو کے بچے ہوئے پانی اور آبِ زمزم کے علاوہ، کھڑے ہو کر پانی پینا مکروہِ تنزیہی ہے۔
چنانچہ امام ابو الحسین مسلم بن حجاج نیساپوری متوفی ۲۶۱ھ اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں: «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الشُّرْبِ قَائِمًا»۔ (صحیح مسلم، ۳/۱۶۰۱)
یعنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پانی پینے سے منع فرمایا ہے۔
اور امام اہلسنّت امام احمد رضا خان حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ لکھتے ہیں: سوائے زمزم شریف وبقیۂ وضو کھڑے ہوکر پانی پینا مکروہ ہے، اس کی حدیثیں وفقہی بحث کتبِ علماء میں موجود ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ۲۱/۶۶۹)
اور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی ۱۳۶۷ھ لکھتے ہیں: وضو کا پانی اور آبِ زم زم کو کھڑے ہو کر پیا جائے، باقی دوسرے پانی کو بیٹھ کر۔ (بہار شریعت، ۳/۱۶/۳۸۸)
اور سوال میں ’’بخاری شریف‘‘ کی جس روایت کا ذکر ہے، اس کے بعد ہی دوسری سند اور کچھ زائد الفاظ کے ساتھ یہ حدیث وارد ہوئی ہے: حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ المَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ، سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ، يُحَدِّثُ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُ صَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ قَعَدَ فِي حَوَائِجِ النَّاسِ فِي رَحَبَةِ الكُوفَةِ، حَتَّى حَضَرَتْ صَلاَةُ العَصْرِ، ثُمَّ أُتِيَ بِمَاءٍ، فَشَرِبَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، وَذَكَرَ رَأْسَهُ وَرِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَامَ «فَشَرِبَ فَضْلَهُ وَهُوَ قَائِمٌ» ثُمَّ قَالَ: إِنَّ نَاسًا يَكْرَهُونَ الشُّرْبَ قِيَامًا، «وَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ»۔ (صحیح البخاری، ۷/۱۱۰)
یعنی، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ظہر کی نماز پڑھی اور لوگوں کی حاجات پوری کرنے کے لیے کوفہ کی جامع مسجد کے صحن میں بیٹھ گئے، جب عصر کا وقت آیا ان کے پاس پانی لایا گیا۔ انھوں نے پیا اور وضو کیا پھر وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیا پھر فرمایا کہ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ بتاتے ہیں اور جس طرح میں نے کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ویسا ہی کیا تھا۔
اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی لکھتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ مطلقاً کھڑے ہو کر پانی پینے کو مکروہ بتاتے ہیں حالانکہ وضو کے پانی کا یہ حکم نہیں بلکہ اس کو کھڑے ہو کر پینا مستحب ہے۔اسی طرح آبِ زم زم کو بھی کھڑے ہو کر پینا سنت ہے۔ یہ دونوں پانی اس حکم سے مستثنیٰ ہیں اور اس میں حکمت یہ ہے کہ کھڑے ہوکر جب پانی پیا جاتا ہے وہ فوراً تمام اعضا کی طرف سرایت کرجاتا ہے اور یہ مضر ہے، مگر یہ دونوں برکت والے ہیں اور ان سے مقصود ہی تبرک ہے، لہٰذا ان کا تمام اعضاء میں پہنچ جانا فائدہ مند ہے۔ بعض لوگوں سے سناگیا ہے کہ مسلم کا جھوٹا پانی بھی کھڑے ہو کر پینا چاہیے، مگر میں نے کسی کتاب میں اس کو نہیں دیکھا، صرف دو ہی پانیوں کا کتابوں میں استثناء مذکور پایا۔ وَالْعِلْمُ عِنْدَ الله۔ (بہار شریعت، ۳/۱۶/۳۸۴)
اور حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی حنفی متوفی ۱۳۹۱ھ لکھتے ہیں: یعنی لوگ سمجھتے ہیں پانی کھڑے ہوکر مطلقًا ممنوع ہے حالانکہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ حضور نے وضو کا پانی کھڑے ہوکر پیا۔ معلوم ہوا کہ وضو کا پانی کھڑے ہوکر پینا سنت ہے یا یہ مطلب ہے کہ کھڑے ہوکر پینا مطلقًا ممنوع نہیں بلکہ جائز ہے میں نے حضور انور کو کھڑے ہوکر پانی پیتے دیکھا ہے مگر پہلے معنی زیادہ موزوں ہیں۔ ابھی ہم نے عرض کردیا کہ پانی کھڑے ہوکر پینا حرام نہیں، ہاں بہتر یہ ہے کہ بیٹھ کر پئے اور چند پانیوں کا کھڑا ہوکر پینا مستحب ہے: ایک آبِ زمزم، دوسرے بعض وضو کا بچا ہوا پانی۔ یہاں ’’مرقات‘‘ نے فرمایا کہ حضرت علی،سعد ابن ابی وقاص،ابن عمر،عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہم اجمعین کھڑے ہوکر پانی پینا درست فرماتے ہیں مگر حق یہ ہے کہ تمام فقہاء وہی جائز کہتے ہیں صرف مستحب یہ ہے کہ بیٹھ کر پیئے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ۶/۱۱۷)والله تعالیٰ أعلم بالصواب
کتبہ:
محمد اُسامہ قادری
پاکستان، کراچی
اتوار،۲۹/صفر، ۱۴۴۷ھ۔۲۴/اگست، ۲۰۲۵م
ایک تبصرہ شائع کریں