اتوار، 17 اگست، 2025

(ایک بیوی دو بیٹیوں میں کس کو کتناملےگا؟)

 

  (ایک بیوی دو بیٹیوں میں کس کو کتناملےگا؟)

(الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین مسئلہ ھذا کے بارے میں کہ شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اور اس کی ایک بیوی ہے اور دو بیٹیاں ہیں یادرہے کہ کل ملکیت 10000000 (ایک کروڑ) کی ہے، تو وراثت کو کیسے تقسیم کریں گے؟ نیز پیسے کے اعتبار سے مثال دے کرسمجھا دیں ۔ برائے کرم دلائل و براہین سے جواب عنایت فرمائیں، عین نوازش ہوگی ۔ 

(سائل: غلام مصطفیٰ رضوی پورنوی)

باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب: برتقدیر صدق سائل وانحصار ورثاء در مذکورین بعد اُمور ثلاثہ متقدمہ علی الارث (یعنی کفن دفن کے تمام اخراجات نکالنے، اگر مرحوم کے ذمہ قرض ہو تو اس کی ادائیگی، اور غیر وارث کے لیے وصیت کی ہو تو تہائی مال سے اسے پورا کرنے کے بعد) مرحوم کا مکمل ترکہ سولہ حصوں پر تقسیم ہوگا جس میں سے بیوہ کو دو حصے اور ہر بیٹی کو سات سات حصے ملیں گے۔

لہٰذا بیوہ کو ایک کروڑ میں سے بارہ لاکھ پچاس ہزار روپے (1,250,000) ملیں گے، اور باقی ستاسی لاکھ پچاس ہزار روپے (8,750,000) دونوں بیٹیوں میں برابر تقسیم ہوں گے؛ اس طرح ہر بیٹی کو تینتالیس لاکھ پچھتّر ہزار روپے (4,375,000) ملیں گے۔

مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ حکمِ قرآنی کے مطابق بیوہ کو میت کی اولاد ہونے کی صورت میں آٹھواں حصہ ملتا ہے، اور بیٹیوں کو اگر ساتھ میں بیٹا نہ ہو تو دو تہائی حصہ ملتا ہے۔ آٹھواں حصہ اور دو تہائی حصہ جب جمع کیے جائیں تو مسئلہ چوبیس سے بنتا ہے، جس میں سے آٹھواں حصہ یعنی تین حصے بیوی کو ملتے ہیں، اور دو تہائی حصہ یعنی سولہ حصے دو بیٹیوں کے درمیان برابر تقسیم ہوتے ہیں، یعنی ہر بیٹی کو آٹھ حصے ملتے ہیں۔ اس طرح اصل مسئلہ (مخرج) چوبیس میں سے پانچ حصے بچ جاتے ہیں۔

چونکہ مذکورہ صورت میں کوئی عَصَبہ موجود نہیں کہ انہیں مال دیا جائے، لہٰذا اُصول کے مطابق باقی ماندہ مال (پانچ حصے) دوبارہ نسبی اصحابِ فرائض پر تقسیم کیا جاتا ہے، اور اسی کو ’’رَدّ‘‘ کہتے ہیں۔ مذکورہ صورت میں نسبی اصحابِ فرائض صرف دو بیٹیاں ہیں۔ بیوی پر رَدّ نہیں ہوتا، اسی لیے اسے مَن لا یُردّ علیہ کہتے ہیں، کیونکہ اس کا تعلق میت سے نسب کے بجائے نکاح کے سبب ہے۔

رَدّ کا طریقہ یہ ہوگا کہ چونکہ یہاں مَن یُردّ علیہ کی ایک جنس (بیٹیاں) موجود ہے اور ساتھ ہی مَن لا یُردّ علیہ (بیوی) بھی ہے، اس لیے پہلے بیوی کا حصہ اس کے اقل مخرج یعنی آٹھ سے بنا کر اسے اس کا آٹھواں حصہ دیا جائے گا، اور باقی بچنے والے سات حصے بیٹیوں پر تقسیم ہوں گے۔نتیجتاً باقی سات حصے بیٹیوں کے دو رؤوس (افراد) کے درمیان تقسیم کرنے پر کسر واقع ہو رہی ہے، یعنی حصے پورے پورے تقسیم نہیں ہورہے۔ چونکہ کسر صرف ایک ہی فریق پر ہے، لہٰذا عددِ رؤوس (۲) کو اصل مسئلہ (آٹھ) سے ضرب دیں گے تو حاصل سولہ ہوگا۔ پھر ہر فریق کے حصے کو بھی اُسی مضروب (۲) سے ضرب دیا جائے گا۔ اس طرح بیٹیوں کے سات حصوں کو دو سے ضرب دینے پر حاصل چودہ ہوگا، جس میں سے ہر ایک بیٹی کے حصے میں سات سات حصے آئیں گے، اور بیوی کے ایک حصے کو دو سے ضرب دینے پر حاصل دو ہوگا، جو بیوی کو ملیں گے۔

چنانچہ علامہ سراج الدین محمد بن عبد الرشید سجاوندی حنفی متوفی ۶۰۰ھ لکھتے ہیں: والثالث: أن يكون مع الأوّل مَن لا يُرَدّ عليه فَأَعْطِ فَرْضِ مَن لا يُرَدّ عليه من أقلّ مَخارجه فإن اسْتَقَام الباقيْ على رُؤُوس مَن يُرَدّ عليه فبِها كزَوج وثَلَاث بَنات، وإن لم يستقم فَاضْرِب وَفْق رُؤُوسهم في مَخرَج فَرْضٍ مَن لا يُرَدّ عليه إِنْ وافق رُؤُوسهم الباقي كزوج وسِتّ بَنات، وإلّا فَاضْرِب كُلّ رُؤُوسهم في مَخرَج فَرْض مَن لا يُرَدّ عليه فالمبلغ تصحيح المسئلة كزَوج وخمس بنات۔ (السراجیۃ، ص ۵۹، ۶۰)

یعنی، مسئلۂ رَدّ کی تیسری قسم یہ ہے کہ ’’من یُرَدّ علیہ‘‘ کی ایک جنس کے ساتھ کوئی ایسا وارث بھی ہو جس پر رد نہیں ہوتا۔ تو ایسے وارث کو اس کا مقررہ حصہ اس کے اقل مخرج سے دے دو۔ پھر اگر باقی حصے ’’من یردّ علیہ‘‘ کے رؤوس پر بالکل برابر تقسیم ہو جائیں تو ٹھیک ہے، جیسے: شوہر اور تین بیٹیاں۔ اور اگر برابر تقسیم نہ ہو تو ’’من یردّ علیہ‘‘ کے رؤوس کے وفق کو ’’من لا یردّ علیہ‘‘ کے مخرجِ مسئلہ میں ضرب دو، بشرطیکہ ان کے رؤوس اور باقی حصے میں نسبتِ توافق ہو، جیسے: شوہر اور چھ بیٹیاں۔ اور اگر نسبتِ توافق نہ ہو بلکہ تباین ہو تو ’’من یردّ علیہ‘‘ کے کُل عددِ رؤوس کو ’’من لا یردّ علیہ‘‘ کے مخرج میں ضرب دو، اور حاصل ضرب ہی مخرجِ مسئلہ ہوگا، جیسے: شوہر اور پانچ بیٹیاں۔

اور بہار شریعت میں ہے: اگر من یرد علیہ کی ایک جنس ہو اور من لا یُرد علیہ بھی ہوں تو من لا یُرد علیہ کا حصہ پہلے اس کے اقل مخارج سے دیا جائے گا اور اس مخرج سے جو بچے گا اس کو من یردّ علیہ کے رؤس پر تقسیم کر دیا جائے گا اب اگر من لا یرد علیہ کو انکے اقل مخارج سے دینے کے بعد باقی ماندہ من یرد علیہ کے رؤس پر پورا تقسیم نہ ہو بلکہ اس میں اور ان کے اعداد رؤس میں نسبت تباین ہو تو کل عدد رؤوس کو من لا یرد علیہ کے مخرجِ مسئلہ میں ضرب دی جائے گی اور حاصل ضرب مخرجِ مسئلہ ہو گا۔ (بہار شریعت، ۳/۲۰/۱۱۵۴، ۱۱۵۵)والله تعالیٰ أعلم بالصواب

کتبہ:

محمد اُسامہ قادری

پاکستان،کراچی

اتوار،۲۲/صفر، ۱۴۴۷ھ۔۱۷/اگست، ۲۰۲۵م

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only