ہفتہ، 16 اگست، 2025

(ایک طلاق دیا پھر تین ماہ بعد ایک طلاق دیا تو کیا حکم ہے؟)

 

  (ایک طلاق دیا پھر تین ماہ بعد ایک طلاق دیا تو کیا حکم ہے؟)

الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے اپنی بیوی کو ایک بار طلاق دیا اور پھر تقریباً تین یا چار ماہ بعد دوسرا طلاق دے دیا اب شرعی حکم کیا ہے زید اور اسکی بیوی کے لیے؟ حوالہ کے ساتھ تسلی بخش جواب عنایت فرمائیں۔

سائل :محمد عمر رضا اسمعیلی دہلی سٹی غازی آباد یو پی الہند)

باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب: صورتِ مسئولہ میں، برتقدیرِ صدقِ سائل، اگر عورت کو پہلی طلاق کے بعد عدّت کے اندر یعنی طلاق ہونے کے بعد تین حیض شروع ہو کر ختم ہونے سے پہلے، یا اگر حاملہ تھی تو وضعِ حمل (بچہ جننے) سے پہلے دوسری طلاق دی گئی، یا پہلی طلاق دینے کے بعد عدّت کے اندر عورت سے رُجوع کرلیا تھا یا میاں بیوی کی طرح ساتھ رہ رہے تھے، تب بھی رجوع ہوگیا، پھر دوسری طلاق دی، تو اس عورت پر دو طلاقیں رجعی واقع ہوگئیں۔ اب اگر عدّت باقی ہے تو شوہر کو رُجوع کا حق حاصل ہے، اور اس میں عورت کی رضامندی شرط نہیں۔ مثلاً زبان سے بیوی کو کہہ دے: ’’میں نے تجھ سے رُجوع کیا‘‘ تو رُجوع ہو جائے گا۔ بہتر یہ ہے کہ دو نیک پرہیزگار گواہوں کی موجودگی میں یہ بات کہے۔ اس صورت میں عورت بدستور اس کی بیوی رہے گی۔

   چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے: وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية. (الفتاوی الھندیۃ، ۱/۴۷۰)

یعنی، اور جب کوئی مرد اپنی بیوی کو ایک طلاقِ رجعی دے یا دو طلاقیں دے، تو اس کے لیے حق ہے کہ عدّت کے اندر اس سے رجوع کر لے، چاہے عورت اس پر راضی ہو یا نہ ہو، ایسا ہی ’’ہدایہ‘‘ میں ہے۔

   اور اگر عدّت ختم ہوگئی ہے تو مرد و عورت دونوں باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرکے ساتھ رہ سکتے ہیں، مگر آئندہ شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا، بشرطیکہ ان دو طلاقوں سے پہلے کوئی طلاق نہ دی ہو۔

   اور اگر پہلی طلاق ہونے کے بعد عدّت ختم ہوگئی تھی، پھر دوسری طلاق دی گئی، تو عورت پر صرف پہلی طلاق پڑی جو عدّت گزرتے ہی بائن ہوگئی، یعنی عورت اس کے نکاح سے خارج ہوگئی اور مرد و عورت ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوگئے۔ چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے: (وأما حكمه) فوقوع الفرقة بانقضاء العدة في الرجعي وبدونه في البائن كذا في فتح القدير. (الفتاوی الھندیۃ، ۱/۳۴۸)

یعنی، اور طلاق کا حکم یہ ہے کہ طلاقِ رجعی میں عدّت ختم ہونے پر جدائی واقع ہوتی ہے، اور طلاقِ بائن میں عدّت ختم ہوئے بغیر بھی جدائی واقع ہو جاتی ہے، ایسا ہی ’’فتح القدیر‘‘ میں ہے۔

   لہٰذا عورت طلاق کی محل نہ رہی، چنانچہ اس کے بعد دی گئی دوسری طلاق لغو اور بے اثر ہوئی، کیونکہ طلاق کے وقوع کے لیے عورت کا نکاح یا عدّت میں ہونا ضروری ہے۔

   چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے: (وأما شرطه) قيام القيد في المرأة نكاح أو عدة۔ (الفتاوی الھندیۃ، ۱/۳۴۸)

یعنی، طلاق (کے وقوع) کی شرط یہ ہے کہ عورت نکاح یا عدّت میں ہو۔

   اس (یعنی ایک طلاق ہونے کی) صورت میں اگر مرد و عورت دونوں ساتھ رہنا چاہیں تو نکاح فرض ہے، ورنہ زنا ہوگا۔ 

   چنانچہ علامہ نظام الدین حنفی اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:إذا كان الطلاق بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها كذا في الهداية۔ (الفتاوی الھندیۃ، ۱/۴۷۲، ۴۷۳)

یعنی، جب طلاقِ بائن تین سے کم ہو تو شوہر کے لیے عدّت کے اندر بھی اور عدّت ختم ہونے کے بعد بھی اس سے دوبارہ نکاح کرنا جائز ہے، ایسا ہی ’’ہدایہ‘‘ میں ہے۔

   البتہ اِس (یعنی ایک طلاق کی) صورت میں شوہر کو آئندہ دو طلاقوں کا حق باقی رہے گا، بشرطیکہ اس سے پہلے کوئی طلاق نہ دی گئی ہو۔ کیونکہ ایک یا دو طلاقوں کے بعد، رُجوع یا نکاحِ جدید کی صورت میں بھی سابقہ طلاقیں ختم نہیں ہوتیں، جب تک کہ حلالہ شرعی نہ ہو جائے۔

   چنانچہ شمس الائمہ ابو بکر محمد بن احمد بن ابی سہل سرخسی حنفی متوفی ۴۸۳ھ لکھتے ہیں: ولو تزوجها قبل التزوج، أو قبل إصابة الزوج الثاني، كانت عنده بما بقي من التطليقات۔ (المبسوط للسرخسی، ۳/۶/۹۵)

یعنی، اور اگر وہ (پہلا شوہر) اپنی سابقہ بیوی سے دوبارہ نکاح کرے، دوسرے شوہر سے اس کے نکاح کرنے سے پہلے، یا دوسرے شوہر کے دخول سے پہلے، تو وہ عورت پہلے شوہر کے پاس باقی ماندہ طلاقوں کے ساتھ لوٹے گی۔

   اور امام اہلسنّت، امام احمد رضا خان حنفی متوفی ۱۳۴۰ھ سے فارسی زبان میں سوال کیا گیا : اگر کسے زنے خودرا دویا یک طلاق بائن دہد بعد ازاں تجدید عقد نما ید پش ثانیاً مالک سہ طلاق گردد یا نہ؟ (یعنی، اگر کسی نے اپنی بیوی کو ایک یا دو بائنہ طلاقیں دی ہوں اور دوبارہ نکاح کرلیا ہو تو کیا وُہ دوبارہ تین طلاقوں کا مالک قرار پائے گا یانہیں؟)۔ تو آپ نے جواباً فارسی میں ارشاد فرمایا: مالک سہ طلاق نہ شود ہر چہ باقی ماندہ است ہموں  بدست اوست (یعنی، تین طلاقوں  کا مالک نہ ہوگا بلکہ باقیماندہ طالق کا مالک رہے گا)۔ (فتاوی رضویہ، ۱۲/۴۵۸)

   اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی ۱۳۶۷ھ ’’عالمگیری‘‘(الفتاوی الھندیۃ، ۱/۴۷۵) اور ’’در مختار‘‘ (الدر المختار، ص ۲۳۱) کے حوالے سے لکھتے ہیں: دوسرے سے عورت نے نکاح کیا اور اُس نے دخول بھی کیا پھر اس کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد شوہر اول سے اسکا نکاح ہوا تو اب شوہر اول تین طلاقوں کا مالک ہوگيا پہلے جو کچھ طلاق دے چکا تھا اُس کا اعتبار اب نہ ہوگا۔ اور اگر شوہر ثانی نے دخول نہ کیا ہواور شوہر اول نے تین طلاقیں دی تھیں جب تو ظاہر ہے کہ حلالہ ہوا ہی نہیں پہلے شوہر سے نکاح ہی نہیں ہو سکتا اور تین سے کم دی تھی تو جو باقی رہ گئی ہے اُسی کا مالک ہے تین کا مالک نہیں۔ (بہار شریعت، ۲/۸/۱۸۰، ۱۸۱)

   اس لیے شوہر (زید) جب بھی ایک یا دو باقی طلاقیں دے گا، عورت اس پر حرمتِ مغلّظہ کے ساتھ حرام ہو جائے گی، اور حلالۂ شرعیہ کے بغیر ان دونوں کا نکاح کسی صورت ممکن نہ ہوگا۔

   چنانچہ قرآن کریم میں ہے: فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ (البقرۃ، ۲/۲۳۰)

ترجمہ کنز الایمان، پھر اگر تیسری طلاق اسے دی تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب

کتبہ

محمد اُسامہ قادری

پاکستان،کراچی

جمعہ،۲۰/صفر، ۱۴۴۷ھ۔۱۵/اگست، ۲۰۲۵م


ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only