اتوار، 21 ستمبر، 2025

(امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ گستاخی کرنے والے پر کیا حکم ہے ؟)

 

  (امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ گستاخی کرنے والے پر کیا حکم ہے ؟)

((السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماۓکرام و مفتیان ذوی الاحترام اس مسئلے میں کہ زید خود کو سنی کہتا ہے لیکن اس نے حضرت امیر معاویہ کی شان میں مندرجہ ذیل گستاخانہ الفاظ استعمال کیے ہیں،معاویہ مردہ باد،، معاویہ سے نسبت رکھنا بھی گناہ ہے جس نے حضرت علی سے جنگ کی ان کی آل سے جنگ کی لفظ خبیث بھی استعمال کیا ہے ،،وہ صحابی نہیں جہنمی ہے معاویہ نے مولی حسین کو قتل کروایا ہے حضرت زینب کے سر سے حجاب چھینا بخاری میں لکھا ہے مظلوموں کو رلا کے صحابی بن گۓ اللہ جہنم نصیب کرے معاویہ کو چھوڑو اور حق راہ پر آؤ ایک شخص سے کہا تو مرےگا تو دیکھےگا معاویہ کو جہنم میں اور معاویہ کیا تیرا باپ ہے کھلی گالی بکی ایک دیوبندی کی ویڈیو شیر کی جس کا ٹائٹل یہ ہے ایک والد نے اہلبیت کو گالیاں دیں اور بیٹے نے اہلبیت کو قتل کیا،نیز امام اہلسنت کے ماننے والے کو کہا تم اعلی والوں کو کچھ نہیں آتا سواۓ جاہل جاہل کرنے کے اور علما کو بھی گالی دی دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسے شخص پر حکم شرع کیا لگےگا جواب عنایت فرمائیے 

المستفتی: محمد زاہد بن صابر لوہار داہود گجرات

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوھاب

واضح رہے کہ قرآن و حدیث میں صحابئہ کرام و اہلبیت اطہار کے فضائل و محامد بیان کیے گۓ ہیں اور ان کی گستاخی کرنے کو سخت ناجائز و حرام اور فسق و بدعت،بد مذہبی اور  گمراہی قرار دیا گیا ہے،دیگر صحابہ کی طرح حضرت امیر معاویہ بھی واجب التعظیم ہیں اہلسنت و جماعت کے نزدیک تمام صحابہ کا ذکر خیر ہی کے ساتھ کرنا لازم ہے،لھذا بر صدق مستفتی زید حضرت امیر معاویہ کی شان میں مذکورہ نازیبا و گستاخانہ الفاظ  استعمال کرکے اور علماۓکرام کو گالی دے کر سخت گنہگار،مستحق عذاب نار اور فاسق و فاجر ہوا، اگر زید نے اعلانیہ طور پر مذکورہ الفاظ استعمال کیے ہیں تو اس پر لازم ہے کہ فوراً اعلانیہ توبہ کرے اور اپنے الفاظ سے رجوع کرے،مذکورہ شخص جب تک توبہ نہ کرے تو اہل بستی پر لازم ہے کہ اس کے ساتھ سلام و کلام بلکہ کسی قسم کا کوئی تعلق روا نہ رکھیں،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشادفرماتا ہے:”وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ : اورجو کہیں تجھے شیطان بھلاوے تو یاد آئے پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔(پارہ٧،سورۃ الانعام ،آیت٦٨)

 اس آیت کے تحت تفسیرات احمدیہ میں ہے’’ھم المبتدع والفاسق والکافر والقعود مع کلھم ممتنع ‘‘ ظالم لوگ بدمذہب اور فاسق اور کافر ہیں، ان سب کے پاس بیٹھنا منع ہے۔( التفسیرات الاحمدیہ ،صفحہ ٣٨٨،مطبع کریمیہ، بمبئی )

تمام صحابئہ کرام (جن میں امیر معاویہ بھی شامل ہیں) جنتی ہیں اور ان کا جنتی ہونا قرآن و حدیث سے ثابت ہے چنانچہ قرآن شریف میں ہے "وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ": اور ان سب (صحابہ) سے اللہ نے سب سے اچھی چیز (جنت) کا وعدہ فرمالیا ہے (القرآن سورۃالحدید پ ٢٧،ع ١٧آیت ١٠)

صحابئہ کرام کے بارے میں صحیح البخاری میں ہے: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ، ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلاَ نَصِيفَهُ»: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے کہ میرے صحابہ کو گالی مت دو، پس اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ جتنا سونا خيرات کرے تو وہ ان کے ایک مُد یا آدھا مُد خيرات کرنے کو نہیں پہنچ سکتا ہے۔(البخاري ,صحيح البخاري ,٥/ ٨)

جامع ترمذى میں ہے:"عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي":حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو (اعتراضات )کا نشانہ نہ بنانا۔(الترمذي، محمد بن عيسى، سنن الترمذي ت شاكر، ٦٩٦/٥)

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں:"لا تسبوھم لعن اللہ من سبھم"یعنی صحابی کو گالی نہ دو نہ ان کو برابھلا کہو جو شخص ان کو گالی دے اور برا بھلا کہے اس پر اللہ کی لعنت ہو (الشرف المؤبد ص ١٠٢)

حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں :"اکرمو اصحابی فانھم خیارکم": میرے صحابہ کی عزت کرو اس لیے کہ وہ تم میں سب سے بہتر ہیں (مشکوۃ شریف ص ٥٥٤)

حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں :"اللہ تعالٰی نے مجھے منتخب فرمایا ہے میرے لیے اصحاب منتخب فرماۓ اور میرے لیے ان میں سے وزراء، انصار اور خسر بناۓ فمن سبھم فعلیہ لعنۃاللہ والملائکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللہ منہ صرفاً و لا عدلاً (رواہ الطبرانی)

یعنی جو شخص انہیں گالی دے اور برا بھلا کہے اس پر اللہ تعالٰی،فرشتوں ،اور سارے انسانوں کی لعنت،اللہ تعالٰی اس کا نہ فرض قبول فرماۓگا اور نہ نفل (الشرف المؤبد ص ١٠٢)

حضور صلی اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں :"اذا رایتم الذین یسبون اصحابی فقولو لعنۃاللہ علی شرکم"یعنی جب تم ان کو دیکھو کہ میرے صحابہ کو گالیاں دیتے ہوں اور ان کو برا بھلا کہتے ہوں تو کہو تمہارے شر پر اللہ تعالٰی کی لعنت (مشکوۃ شریف ص ٥٥٤)

حضرت امیر معاویہ صحابی ہیں چنانچہ صحیح بخاری میں ہے:"عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، قَالَ: أَوْتَرَ مُعَاوِيَةُ بَعْدَ العِشَاءِ بِرَكْعَةٍ، وَعِنْدَهُ مَوْلًى لِابْنِ عَبَّاسٍ، فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ: دَعْهُ فَإِنَّهُ قَدْ صَحِبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ابن ملیکہ سے مروی ہے: آپ کہتے ہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشا کے بعد ایک رکعت وتر پڑھی اس وقت آپ کے پاس حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کے غلام حاضر تھے جب وہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ‌ تعالٰی عنہما کی بارگاہ میں آۓ تو حضرت امیر معاویہ کا واقعہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا: معاویہ کا معاملہ چھوڑ دو کہ وہ صحابی رسول ہیں۔(البخاري ,صحيح البخاري ,٥/ ٢٨)

حضرت علامہ قاضی عیاض علیہ الرحمہ لکھتے ہیں حضرت معافی بن عمران علیہ الرحمہ سے ایک شخص نے کہا حضرت عمر بن عبدالعزیز حضرت امیر معاویہ سے افضل ہیں یہ سنتے ہی علامہ ابن عمران غضب ناک ہوگۓ اور فرمایا"لا یقاس احد باصحاب النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم معاویۃ صاحبہ و صھرہ و کاتبہ و امینہ علی وحی اللہ عزوجل "یعنی حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ پر کسی کو قیاس نہ کیا جاۓگا معاویہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کے صحابی ان کے سالے ان کے کاتب اور خدا عزوجل کی وحی پر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم  کے امین ہیں ( الناہیہ ص ١٧)

امیر معاویہ صحابی ہے اور کسی صحابی کی شان میں گستاخی کرنا فسق و بدعت ہے چنانچہ شرح عقائد میں ہے”فسبھم و الطعن فیھم ان کان مما یخالف الادلۃ القطعیۃفکفر کقذف عائشۃ والا فبدعۃ وفسق و بالجملۃ لم ینقل عن السلف المجتھدین والعلماء الصالحین جواز اللعن علی معاویۃ“:صحابہ کرام علیہم الرضوان کی شان میں گالی و طعن اگر دلیل قطعی کے مخالف ہو جیسے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا پر قذف کی تہمت لگانا،تو وہ  کفر ہے اور اس کے علاوہ (صحابئہ  کرام کی شان میں گستاخی)فسق و بدعت  ہے،حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ  پر لعن طعن کرنے کا جواز ائمہ مجتہدین اور علماء صالحین سے نہیں ملتاہے ۔(شرح عقائد ،ص٣٣٨مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

حضرت امیر معاویہ نیز تمام صحابہ کو عادل جاننا ضروری ہے جیساکہ المسامرة میں ہے:"(واعتقاد اهل السنة)و الجماعة (تزكية جميع الصحابة)رضي الله عنهم وجوبا بإثبات العدالة لكل منهم والكف عن الطعن فيهم: اہل سنت و جماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام صحابہ کو عادل ماننا،ان کی پاکیزگی بیان کرنا اور ان کے متعلق طعنہ زنی سے باز رہنا ضروری ہے۔(المسامرۃ شرح المسایرہ، الرکن الرابع، الاصل الثامن، ص ٢٥٩ ،دار الکتب العلمیة)

حضرت امیر معاویہ پر لعن طعن کرنے والا اور آپ کو جہنمی کہنے والا خود جہنمی کتا ہے جیساکہ نسيم الرياض میں ہے:"ومن يكن يطعن في معاوية فذاك كلب من كلاب الهاوية" جو حضرت معاويہ کے متعلق طعنہ زنی کرے وہ جہنم کا ایک کتا ہے (نسيم الرياض ج٤، ص ٥٢٥ دار الكتب العلمية)

صحابی کو گالی دینا اور خبیث کہنا گمراہی ہے چنانچہ رد المحتار میں ہے:"اتَّفَقَ الْأَئِمَّةُ عَلَى أنّ سَبّ أَحَدٍ مِنْ الصَّحَابَةِ وَبُغْضهُ لَا يَكُونُ كُفْرًا، لَكِنْ يُضَلَّلُ إلَخْ": ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی صحابی رسول کو گالی دینا اور ان سے بغض رکھنا کفر تو نہیں مگر گمراہی ہے(رد المحتار ٢٣٧/٤)

اس میں شک نہیں کہ یزید پلید کے حکم سے اہلبیت اطہار پر ظلم و ستم کیا گیا اور انہیں تہ شہید کیا گیا لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ بیٹے کے ساتھ باپ کو بھی مورد الزام ٹھہیرایا جاۓ لھذا زید کا یہ کہنا کہ امیر معاویہ نے امام حسین کو قتل کروایا اور سیدہ بی بی زینب کے سر سے حجاب چھینا اور اہلبیت کو گالیاں دیں وغیرہ وغیرہ تو یہ محض بے بنیاد الزام ہے اور قرآن و حدیث کی رو سے غلط و بے بنیاد الزام لگانے والا سخت گنہگار، مستوجب قہر قہار اور مستحق عذاب نار ہوتا ہے اور کسی صحابی پر الزام لگانا تو اس سے بھی زیادہ سخت گناہ اور گمراہی و بے دینی ہے!،مؤمن پر بے جا الزام لگانے کے متعلق حضور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا:"وَمَنْ قَالَ فِي مُؤْمِنٍ مَا لَيْسَ فِيهِ, أَسْكَنَهُ اللَّهُ رَدْغَةَ الْخَبَالِ، حَتَّى يَخْرُجَ مِمَّا قَالَ”: جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہیں تھی تو اللہ تعالی اسے جہنمیوں کی پیپ میں ڈالے گا حتی کہ وہ اپنی بات سے باز آجاۓ”۔(سنن ابو داؤد: ٣٥٩٧) 

مسلمان کو گالی دینا حدیث مبارک کی رو سے حرام قطعی اور علما کو گالی دینا تو اس سے بھی زیادہ سخت ہے اگر علما کو آپسی رنجش کی بنا پر گالی دی ہے تو گالی دینے والا گنہگار ہوا اگر علم دین کی وجہ سے گالی دی ہے تو گالی دینے والا کافر ہوا،چنانچہ ردالمحتار میں یے،فلو بطریق الحقارۃ کفر، لأن ٳهانة أهل العلم کفر۔ یعنی:(عالم دین کی ) بطریق حقارت توہین کرنا کفر ہے اس لیے کہ اہل علم کی اہانت کفر ہے۔(ردالمحتار ۴/۷۲)

سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں؛"کسی عالم دین کی توہین اگر علم کی وجہ سے کیا ہے تو وہ کافر ہے اور اگر بوجہ علم اس کی تعظیم فرض جانتا ہے مگر اپنی کسی دنیوی خصومت کے باعث برا کہتا ہے تو سخت فاسق وفاجر ہے اور اگر بے سبب رنج رکھتا ہے تو مریض القلب خبیث الباطن ہے اور اس کے کفر کا اندیشہ ہے ۔(فتاویٰ رضویہ ج ۱، ص ۵۷۱)

اسی میں ہے اگر علمائے دین کو اس لئے برا کہتا ہے کہ وہ عالم ہے جب تو صریح کفر ہے ۔( فتاویٰ رضویہ، ج ۹ ، ص ۱۴۰)

اگے فرماتے ہیں کہ مجمع الانہر میں ہے من قال لعالم عویلم استخفافافقد کفر جو کسی عالم کو مولویا تحقیر کے لئے کہے وہ کافر ہے ۔( فتاویٰ رضویہ ، ج ۹، ص ۱۳۱، ومجمع الانہر ، ج ۱، ص ۶۹۵)

الانتباہ: اگر زید نے اعلانیہ طور پر مذکورہ بالا گستاخانہ الفاظ بولے ہیں اور علماۓکرام کو گالی دی ہےتو زید اعلانیہ توبہ کرے اگر چند لوگوں کی موجودگی میں مغلظات بکا ہے تو اتنے لوگوں کی موجودگی میں توبہ کرلے تو اس سے سلام و کلام کرنا اسے گھر جانا دعوت قبول کرنا جائز ورنہ بصورت دیگر اہل بستی اس کا بالکلیہ مقاطعہ کریں اور جو اس کا ساتھ دے تو اس کے ساتھ بھی تعلقات نہ رکھیں.واللہ تعالٰی و رسولہ الاعلٰی اعلم بالصواب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم

کتبہ:سید محمد نذیرمیاں سہروردی

 داہود شریف گجرات

بتاریخ ٢٧ربیع الاول شریف ١٤٤٧ھ

بمطابق ١٩ستمبر٢٠٢٥ء

بروز جمعہ


ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only