(نابالغ عشا پڑھنےکے بعدبالغ ہواتو کیاعشا پھر پڑھے ؟)
(الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید جو کہ نابالغ ہے اس نے عشا کی نماز ادا کی پھر سو گیا رات میں دوبجے اسے احتلام ہوا (یعنی وہ بالغ ہوگیا) تو آیا اس پر عشا کی نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے؟
(سائل : محمد نثار نظامی گورکھپور)
باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب: جی ہاں، اس پر عشاء کی نماز دوبارہ پڑھنا ضروری ہے۔
چنانچہ علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی ۹۷۰ھ لکھتے ہیں: غلام احتلم بعد ما صلى العشاء ولم يستيقظ حتى طلع الفجر ليس عليه قضاء العشاء والمختار أن عليه قضاء العشاء وإذا استيقظ قبل الطلوع عليه قضاء العشاء بالإجماع وهي واقعة محمد بن الحسن سألتها أبا حنيفة فأجابه بما ذكرنا فأعاد العشاء. (البحر الرائق، ۲/۹۷)
یعنی، لڑکے کو عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد احتلام ہوا اور وہ طلوع فجر تک بیدار نہ ہوا، تو اس پر عشاء کی قضا نہیں۔ اور مختار یہ ہے کہ اس پر عشاء کی قضا لازم ہے۔ اور جب وہ طلوع فجر سے پہلے بیدار ہو، تو اس پر بالاتفاق عشاء کی قضا لازم ہے۔ اور یہی واقعہ امام محمد بن حسن کا ہے: جب انہوں نے امام ابو حنیفہ سے یہ سوال کیا، تو آپ نے انہیں وہی جواب دیا جو ہم نے ذکر کیا تو آپ نے عشاء کا اعادہ کیا۔
اور صدر الشریعہ محمد امجد علی اعظمی حنفی متوفی ۱۳۶۷ھ لکھتے ہیں: نابالغ عشا کی نماز پڑھ کر سویا تھا اس کو احتلام ہوا اور بیدار نہ ہوا یہاں تک کہ فجر طلوع ہونے کے بعد آنکھ کھلی تو عشا کا اعادہ کرے اور اگر طلوع فجر سے پیشتر آنکھ کھلی تو اس پر عشا کی نماز بالاجماع فرض ہے۔ (بہار شریعت، جلد اول، حصہ سوم، ص ۴۴۴)والله تعالیٰ أعلم بالصواب
کتبہ:
محمد اُسامہ قادری
پاکستان، کراچی
پیر،۲۸/ربیع الأول، ۱۴۴۷ھ۔۲۲/ستمبر، ۲۰۲۵م
ایک تبصرہ شائع کریں