بدھ، 15 اکتوبر، 2025

(حی علی الصلوۃ ایک بار کہاتو کیاحکم ہے؟)

 



  (حی علی الصلوۃ ایک بار کہاتو کیاحکم ہے؟)

(السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام  و مفتیان شرع دیں اس مسٸلہ میں کہ اگر کوئی فرد اذان پڑھ رہا ہو اور حی علی الصلاہ کہ کرکے دوسری بار حی علی الفلاح کہ دے یعنی حی علی الصلاہ ایک ہی بار کہا تو کیا اذان کو دہرانا پڑےگی؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں

المستفتی: محمد اکبر اشرفی سہروردی رانی سر اترگجرات

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب بعون الملک الوھاب

اذان کہتے ہوۓ اگر کوئی فرد حی علی الصلاۃ کہ کر دوسری بار حی علی الفلاح کہ دے یعنی حی علی الصلاۃ ایک ہی بار کہا تو چاہیے کہ اتنے الفاظ (حی علی الصلوۃ) کا اعادہ کرلے،اور اس کے بعد پھر حی علی الفلاح دو بار کہے،لیکن اگر اس کا اعادہ نہ کیا اور اذان پوری کرلی تو اب سرے سے اذان دہرانے کی حاجت نہیں! 

 فتاوی شامی میں ہے "کما لو قدم الفلاح علی الصلاة یعیده فقط أي ولایستأنف الأذان من أوله" الخ

ترجمہ: جیساکہ اگر کوئی (حی علی) الفلاح کو (حی) علی الصلوۃ پر مقدم کردے تو صرف اتنا ہی لوٹاۓ از سرنو پوری اذان نہ کہے( فتاوی شامی: ۱/ ۳۶۱)  

صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ بہار شریعت میں تحریر فرماتے ہیں : "اگر کلمات اذان و اقامت میں کسی جگہ تقدیم و تاخیر ہوگئ تو اتنے کو صحیح کرلے سرے سے اعادے کی حاجت نہیں اور اگر صحیح نہ کیے اور نماز پڑھ لی تو نماز کے اعادے کی حاجت نہیں۔( بہار شریعت حصہ ٣ ص ٤٦٩ )واللہ تعالٰی و رسولہ الاعلٰی اعلم بالصواب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم  

کتبہ:سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی

داہود شریف الہند  

بتاریخ ٢١ربیع الآخر شریف١٤٤٧ھ

بمطابق١٣اکتوبر٢٠٢٥ء 

بروز پیر)





ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only