(ٹیوب سے حمل ٹھہرانا کیساہے؟)
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید کا اپنی زوجہ سے استقرار نہیں پا رہا تو کیا وہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی(ivf) تھیراپی کرا سکتا ہے،استعمال کرسکتے ہیں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں کسی اور کا اسپرم استعمال کرتے ہیں اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسی مرد کا تو کیا ایسے میں مسلم ڈاکٹر سے ivf کرانا درست ہوگا یا کسی سے بھی کرا سکتے ہیں
عندالشرع اس کا کیا حکم ہے؟ جواب عنایت فرمائیے!
المستفتی: حافظ عبدالرحمن اشرفی امام و خطیب عالمگیری مسجد داہود شریف
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
واضح رہے کہ زید کی عورت کے رحم میں امساک و استقرار کی صلاحیت موجود نہ ہو تو مذکورہ فی السوال غیر فطری طریقوں سے اولاد حاصل کرنا اسلام میں جائز نہیں تاہم دریافت کردہ مسئلے میںIVF کرانے کے تین طریقے معروف ہیں اور وہ یہ ہیں
١ بیوی کے رحم میں مادہ منویہ اس کے شوہر کا رکھا جاتا ہے
٢ اس عورت کے رحم میں کسی دوسرے مرد کا مادہ منویہ رکھا جاتا ہے
٣ مادہ منویہ دوسری عورت کے رحم میں رکھا جاتا ہے!
مندرجہ بالا دوسرا اور تیسرا طریقہ ناجائز ہیں جبکہ پہلا طریقہ چند قیودات کے ساتھ جائز ہے لیکن انتہائی دشوار گزار ہے کیوں کہ عورت کی فرج میں مادہءمنویہ رکھنے کے لیے طبی عملہ (لیڈی/جینس ڈاکٹر اسٹاف) کے سامنے ستر عورت کھولنا پڑتا ہے،اور اجنبی مرد یا عورت کا دوسری عورت کی شرمگاہ دیکھنا حالت اضطرار کے علاوہ عام حالات میں ناجائز و حرام ہے،اور حصول اولاد کے لیے کسی اجنبی سے مادہ منویہ (Sprems) داخل کرانا وجہ شرعی یا ضرورت شدیدہ سے نہیں ہے کہ اسے جائز قرار دیاجاۓ، ہاں البتہ جواز کی صورت میں شوہر کسی طبیب حاذق (ماہر ڈاکٹر)سے رہنمائی لیکر اپنے جرثموں (Sprems) اور بیوی کے انڈوں (ovum) کو ملا کر بیوی کے رحم میں داخل کر سکتا ہے یا بیوی کسی ماہر لیڈی ڈاکٹر سے تعلیم حاصل کرکے اس کام کو خود انجام دے سکتی ہے اس کے نتیجہ میں متولد بچہ ثابت النسب ہوگا مگر یہ امر بےحد مشکل ہے بہرحال شوہر یا بیوی تنہائی میں یہ کام کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ورنہ بصورت دیگر جائز نہیں،اور یہ بھی خاص طور پر معلوم رہے کہ عورت کی شرمگاہ میں مادہ منویہ پہنچانے کے لیے شوہر کی منی کا اخراج بیوی کے ذریعے ہو یا پھر عزل کے طور پر ہو شوہر از خود اخراج نہیں کر سکتا!
پہلی صورت میں بچہ ثابت النسب ہوگا چنانچہ البحرالرائق میں امام اہلسنت حضرت علامہ ابن نجیم مصری (المتوفٰی ٨٧٠ھ) لکھتے ہیں: "وما قیل لا یلزم من ثبوت النسب منہ وطؤہ لان الحبل قد یکون بادخال الماءالفرج دون جماع مع انہ نادر والوجہ الظاہر ھوالمعتاد:
ترجمہ: اور جو کہا گیا کہ کسی شخص سے ثبوت نسب سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس نے (بیوی سے)وطی بھی کی ہو کیوں کہ بعض اوقات بغیر جماع کے (صرف) عورت کے رحم میں مادہ منویہ پہنچانے سے بھی وہ حاملہ ہوجاتی ہے لیکن یہ معاملہ نادر ہے (البحرالرائق کتاب الطلاق باب ثبوت النسب ج ٤ص٢٦٣ س ١٧، ١٨)
فتاوی عالمگری میں ہے امام اہلسنت حضرت سید زین الدین شیرازی اور فقہاۓکرام لکھتے ہیں"رجل عالج جاریتہ فیما دون الفرج فانزلت فاخذت ماءہ فی شئی فاستدخلتہ في فرجہا فعلقت عند ابی حنیفۃ ان الولد ولدہ وتصیر الجاریۃ أم ولد لہ"ترجمہ:کسی مرد نے اپنی بابندی سے فرج کے علاوہ میں علاج کیا اور پھر انزال ہوا اور اس (باندی) نے مادہ منویہ کو کسی چیز میں لیکر اپنی رحم میں داخل کر لیا تو (اس صورت میں پیدا ہونے والا بچہ)امام اعظم ابوحنیفہ علیہ الرحمہ کے نزدیک اس مرد کا ہوگا اور باندی اس کی ام ولد ہوگی!(فتاوی عالمگیری ج٤ ص١١٤ البحرالرائق کتاب العتق باب الاستیلاد ج ٤ص٤٥٢)
مرد کا اپنے ہاتھ سے منی نکالنا جائز نہیں حدیث پاک میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ناکح الید کو ملعون فرمایاہے البتہ بیوی کے ذریعے اخراج منی جائز ہے جیساکہ امام اہلسنت علامہ شامی قادری نقشبندی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : "ویجوز یستمنی بید زوجتہ"ترجمہ:بیوی کے ہاتھ سے فراغت پانا جائز ہے(ردالمحتار ج ٦ کتاب الحدود ص٣٩ دارعالم الکتب)
دوسری اور تیسری صورت جائز نہیں کیوں کہ غیر مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں داخل کیا جاتا ہے اور غیر نطفہ کے بارے میں ابوداؤد شریف کی حدیث مبارک میں ہے" قَالَ: لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ"ترجمہ:اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والے کسی بھی شخص کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے پانی سے کسی اور کی کھیتی سیراب کرے
(سنن ابي داودكتاب النكاح باب في وطء السبايا حدیث ٢١٥٨) واللہ تعالٰی و رسولہ الاعلٰی اعلم بالصواب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم
کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی
داہود شریف الہند
بتاریخ١٣جمادی الاول١٤٤٧ھ
بمطابق٥نومبر٢٠٢٥ء
بروز چہار شنبہ (بدھ)

ایک تبصرہ شائع کریں