پیر، 10 نومبر، 2025

(اچانک موت کا آنا کیساہے؟)

 


  (اچانک موت کا آنا کیساہے؟)


السلام عليكم و رحمة الله و بركاته  

 کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسٔلہ کے بارے میں کہ کسی مسلمان کی اچانک موت آنا کیسا ہے قرآن اور حدیث کی روشنی جواب عنایت فرمائیں عین نوازش ہوگی ؟

سائل، محمد احمد "  ایم پی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

الجواب  بعون الملک الوہاب

مطلقاً اچانک موت کو برا تصور کرنا یہ بے اصل بات ہے ہاں مگر اچانک موت آنا کافر کے لیے اللہ تبارک و تعالی کے غضب کی پکڑ ہے، اور بندہ مومن کے لیے اچانک موت کا آ جانا اللہ تعالی کی رحمت اور راحت و سکون کا ذریعہ ہے اس لیے کہ بندۂ مومن موت کے وقت کی تمام تر پریشانیوں سے بیماریوں سے بچ گیا جو کہ رب تعالی کی رحمت ہے اگرچہ بیماری میں مرنا اچھا اور اس میں فضیلت ہے ، لیکن بندۂ مومن جو کہ اللہ تعالی کی یاد سے اور موت سے اور اپنی آخرت کے حشر سے غافل رہا اس کے لیے بھی اللہ تعالی کی پکڑ ہے اس لیے کہ اسے توبہ کا موقع نہیں ملتا لیکن عقلمند اور نیک ادمی کے لیے اللہ تعالی کی رحمت ہےجیسا کہ حدیث پاک ہے:وَعَنْ  عُبَيْدِ اللهِ  بْنِ خَالِدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ   صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : “مَوْتُ الْفُجَاءَةِ أَخْذَةُ الْأَسَفِ” . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَزَادَ الْبَيْهَقِيُّ فِيْ شُعَبِ الْإِيْمَانِ وَرَزِينٌ فِي كِتَابِهٖ: “أَخْذَةُ الأَسْفِ لِلْكَافِرِ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤمِنِ"روایت ہے حضرت عبید الله  ابن خالد سے فرماتے ہیں فرمایا رسول  الله  صلی الله علیہ وسلم نے ناگہانی موت غضب کی پکڑ ہے ، (ابوداؤد)اوربیہقی نے شعب الایمان میں اور رزین نے اپنی کتاب میں یہ بڑھایا کہ کافر کے لیئے غضب کی پکڑہے اور مؤمن کے لیئے رحمت۔ 

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ تعالی علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں :یعنی ہارٹ فیل کی موت غضبِ رب کی علامت ہے کیونکہ اس میں بندے کو توبہ،نیک عمل،اچھی وصیت کا موقعہ نہیں ملتا مگر یہ کافر کے لیے ہے ، مؤمن کے لیے یہ بھی نعمت ہے جیساکہ آئندہ آرہا ہے کیونکہ مؤمن کسی وقت رب سے غافل رہتا ہی نہیں،دیکھو حضرت سلیمان و یعقوب علیہما السلام کی وفات اچانک ہی ہوئی،حضور صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اچانک موت مؤمن کے لیئے راحت ہے اور کافر کے لیئے پکڑ۔ کہ مؤمن اس موت میں بیماریوں کی مصیبت سے بچ جاتا ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 2 ص 434 مکتبہ ادبی دنیا دہلی)


وَعَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ قَالَ: تُوُفِّيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ فِي نَوْمٍ نَامَهُ،فَأَعْتَقَتْ عَنْهُ عَائِشَةُ أُخْتُهُ رِقَابًا كَثِيرَةً. رَوَاهُ مَالِكٌ."روایت ہے حضرت یحیی ابن سعید سے فرماتے ہیں کہ عبد الرحمن ابن ابوبکر سوتے میں وفات پاگئے ان کی بہن عائشہ صدیقہ نے انکی طرف سے بہت غلام آزاد کیے .آپ حضرت عائشہ صدیقہ کے سگے بھائی تھے حضرت ام رومان کے شکم شریف سے، اچانک وفات پائی،کوئی وصیت وغیرہ نہ کرسکے اس لیے آپ نے علاوہ اور صدقات کے ان کی طرف سے بہت سے غلام بھی آزاد فرمائے۔خیال رہے کہ اچانک موت غافل کے لیے ﷲ کی پکڑ ہے کہ اسے توبہ کا وقت نہیں ملتا،عاقل و نیک کار کے لیے ﷲ کی رحمت ، کہ رب اسے بیماری کی تکالیف سے بچا لیتا ہے، حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات اچانک ہی ہوئی بحالت نماز جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 5 ص 224/223 مکتبہ ادبی دنیا دہلی)

مؤمن کی بیماری خصوصًا بیماری موت بھی  الله  کی رحمت ہے کہ اس کی برکت سے  الله  گناہ معاف کرتا ہے ، نیز بندہ توبہ وغیرہ کرکے پاک و صاف ہو جاتاہے،لہذا بیمار ہوکر مرنا بہتر،اگرچہ مؤمن کے لیے ہاٹ فیل ہونا بھی رحمت ہے ،(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 2 ص 420)واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 

کتبہ 

محمد معراج رضوی واحدی




ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only