(فجر کی سنت میں تیسری رکعت کےلئے کھڑاہوگیاتوکیاحکم ہے؟)
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علما کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر کوئی شخص فجر کی سنت میں تیسری رکعت کے لئے کھڑا ہوجائے تو سنت کا کیا حکم ہوگا؟ اگرچہ قعدہ اخیرہ کیا یا نہیں کیا دونوں صورتوں کا حکمِ شرع بیان فرماٸیں۔
مدلل جواب عنایت فرمادیں۔
المستفتی: اعجاز احمد کرچی
{بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم}
الجواب بعون الملک الوہاب
اگر قعدہ اخیرہ کیا ہویانہ کیاہو دونوں صورتوں میں اگر تیسری رکعت کےلئے کھڑاہوگیاتو پلٹ آئے قعدہ کرے پھر سجدہ سہو کرکے نماز مکمل کرے.
اور اگر تیسری کا سجدہ کرلیاتو ایک رکعت اور ملائے کہ چار ہوجائے اور آخر میں سجدۂ سہو کرے،
اوراگر قعدۂ کیے بغیر کھڑا ہوگیا اور اس رکعت کا سجدہ بھی کرلیا تو ایک رکعت اور ملاکر چار رکعت مکمل کرکے سجدہ سہو کرے اس طرح سنت فجر بھی اداہوجائےگی.
”بہار شریعت“میں ہے:”دو رکعت پر بیٹھنا بھول گیا کھڑا ہو گیا تو جب تک تیسری کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جائے اور سجدہ کر لیا ہو تو چار پوری کرلے مگر یہ دوشمار کی جائیں گی“.....(جلد ١، صفحہ ٦٩٤، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
اور رہا وقت فجر میں نوافل کا مکروہ ہونا تو یہ اس وقت ہے جب قصداً پڑھے اور یہاں قصداً نہیں بلکہ سہواً ہواہے لہذا کراہت نہیں۔جیساکہ "درمختار“میں ہے:”وان قعد فی الرابعۃ وان سجد للخامسۃ ضم الیھا سادسۃ لو فی العصرو خامسۃ فی المغرب ورابعۃ فی الفجر،بہ یفتی لتصیر الرکعتان لہ نفلاوسجد للسھو “ یعنی اگر چوتھی رکعت میں قعدہ کیاپھر پانچویں کے لیے سجدہ کرلیا تو اب چھٹی رکعت بھی ادا کرے گا ،اگرچہ نماز عصر ہو۔ مغرب میں پانچویں اور فجر میں چوتھی رکعت ادا کرے گا۔ یہ مفتی بہ قول ہے، اس طرح یہ آخری دو رکعتیں نفل ہو جائیں گی اور آخر میں سجدہ سہو کرے گا"(در مختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، جلد ٢، صفحہ ٥٥٣، مطبوعہ بیروت-لبنان)
اس کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں:"اشار الی انہ لا فرق فی مشروعیۃ الضم بین الاوقات المکروھۃ وغیرھا لما مر ان التنفل فیھا انما یکرہ لو عن قصد والا فلا وھو الصحیح زیلعی وعلیہ الفتوی ”مجتبی“ وإلى أنه کما لا یکرہ فی العصر لا یکرہ فی الفجر، وصرح في ”التجنيس“ بأن الفتوى على أنه لا فرق بينهما في عدم كراهة الضم“ مصنف نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس صورت میں وقت چاہے مکروہ ہو یا نہ ہو، رکعت ملانے میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ بیان ہو چکا ہے کہ مکروہ اوقات میں نوافل اس وقت مکروہ ہیں جب وہ جان بوجھ کر پڑھے جائیں، ورنہ مکروہ نہیں ہیں، یہی مفتیٰ بہ ہے۔ نیز مصنف نے اس طرف بھی اشارہ کیا ہےکہ اس صورت میں جس طرح عصر کے فرض میں رکعت ملانا مکروہ نہیں ہے، اسی طرح فجر میں بھی مکروہ نہیں ہے، اور ”تجنیس“ میں اسکی صراحت ہے کہ ضم کی صورت میں عدم کراہت کا ان کے مابین فرق نہیں ہے(در مختار مع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، جلد ٢، صفحہ ٥٥٣، مطبوعہ بیروت-لبنان)والله تعالیٰ عزوجل و رسوله ﷺ أعلم بالصواب
کتبہ
عبد الوکیل صدیقی نقشبندی پھلودی راجستھان
خاد التدریس:الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان الھند
٥ جمادی الاولی ١٤٤٦ھ۔ ٨ نومبر ٢٠٢٤ء۔ بروز جمعہ
ایک تبصرہ شائع کریں