منگل، 12 نومبر، 2024

(امیمہ اور حمیمہ نام رکھناکیساہے؟)

 (امیمہ اور حمیمہ نام رکھناکیساہے؟)


السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
امید کرتاہوں کہ آپ حضرات خیر وعافیت سے ہونگے علماء کرام کی بارگاہ میں سوال ہے کہ امیمہ ۔اور۔حمیمہ نام رکھنا کیسا ہے؟

وَعَلَیْڪُمْ اَلسَّلَامْ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَڪَاتُہ
  بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب

صورت مذکورہ میں امیمہ  نام رکھنا صحیح ہے ، کیونکہ لفظ  اُمیمہ۔ (  Umaima ) لفظ ِاُم  کی تصغیر ہے جس کا معنی" ماں "ہے ۔ اُمیمہ نام رکھنا جائز  ہی نہیں بلکہ باعثِ فضیلت ہے ،کیونکہ یہ نام کئی صحابیات علیہم الرضوان کا نام ہے۔ جن میں کچھ مشہور نام یہ ہیں:جیساکہ علامہ ابن حجر العسقلانی  الاصابۃ فی تمییز الصحابۃمیں تحریر فرماتے ہیں "أُمیمۃ بنت  الخطاب أخت عمر رضی اللہ عنہ۔ أُمیمۃ بنت أبي سفيان بن حرب بن أمية زوج صفوان بن أمية۔أُمیمۃ بنت عبد المطلب بن هاشم بن عبد مناف الهاشمية، عمة رسول الله صلى الله عليه وسلم۔ أُمیمۃ مولاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال أبو عمر :خدمت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ أُمیمۃ والدۃ أبی ھریرۃ" اُمیمہ بنت خطاب ،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بہن ہیں ۔اُمیمہ بنت ابو سفیان بن حرب بن امیہ ،صفوان بن اُمیّہ کی بیوی ہیں۔ اُمیمہ   بنت عبد المطلب  بن عاشم بن عبد مناف ہاشمیہ  ،حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی جان ہیں ۔ اُمیمہ حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی  خادمہ ہیں ۔حضرت  ابو عمر نے فرمایا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے ۔ اُمیمہ حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ  عنہ کی  والدہ ہیں ۔(الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ ،تراجم النساء،حرف الالف،ص1820۔1823، المکتبۃ العصریہ،بیروت )

رہی بات حمیمہ نام کی تو اس کے چند معانی آتے ہیں جیسا کہ  حمیمہ لفظ کے متعلق  لغت کی کتاب القاموس الوحید میں ہے ۔"لفظ حمیمہ یہ حمیم کا مؤنث ہے اس کا معنی ہے ۔ گرم پانی ۔ گرم کیا ہوا دودھ ، عمدہ نسل کا اونٹ اور گہرا دوست (القاموس الوحید ص 135 .  380 )

تو مذکورہ نام  ایک معنی (گہرا دوست ) کے اعتبار سے رکھ سکتے ہیں ۔قرآن مقدس کے اندر بھی لفظ حمیم دوست اور گرم پانی  معنی میں وارد ہو ہے"فلیس لہ الیوم ھھنا حمیم "تو آج یہاں اس کا کوئی دوست نہیں ۔( پارہ 29 سورہ الحاقۃ آیت 35 )

"لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْهَا بَرْدًا وَّ لَا شَرَابًا الَّا حَمِیْمًا وَّ غَسَّاقًا"اس میں کسی طرح کی ٹھنڈک کا مزہ نہ پائیں گے اور نہ کچھ پینے کو۔ مگر کھولتا پانی(سورہ نبا پارہ 30۔ آیت نمبر 24. 25 )

لیکن بہتر یہی ہے کہ صحابہ کرام یا صحابیات امہات المومنین کے نام پر ہی نام رکھا جائے تا کہ برکت حاصل ہواکثر لوگ قرآن کریم یا دیگر زبان میں اپنے آپ لفظ دیکھتے ہیں اور اگر اسکا تلفظ انکی عقل و دماغ کےمطابق اچھا ہوتا ہے اسی لفظ کو اختیار کر لیتے ہیں انہیں اس سے کوئ غرض نہیں کہ یہ لفظ فعل ہے یا حرف ہے یا اسم یا اسکا معنی و مفہوم از روئے شرع درست ہے یا نہیں،  یاد رہے کہ کسی بھی کلمہ کا قرآن مجید میں یا پھر کسی دوسری زبان میں موجود ہونا اس کے معنی و مفہوم کی درستگی کی صحیح و درست ہونے پر دلالت نہیں کرتا، لہذا بچوں کے اچھے نام رکھنا چاہئے.

حدیث شریف میں ہے"عن ابی الدرداء رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکم تدعون یوم القیمۃ باسمائکم واسماء ابائکم فاحسنوا اسمائکم"حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن تم کو تمہارے نام اور تمہارے باپ کے نام سے بلایا جائےگا لہذا اچھے نام رکھو(ابو داوود کتاب الادب باب فی تغییر الاسماء حدیث نمبر 4948)

حدیث پاک میں اچھے نام رکھنے کی ترغیب دلائی گئی ہے اچھے نام وہ ہیں جو شریعت مطہرہ کی روشنی میں صحیح و درست ہیں اور جن کا کوئی صحیح معنی و مفہوم ہو.

 خلاصہ یہ ہے کہ  حمیمہ نام رکھنا چند معانی کی وجہ سے مناسب نہیں بلکہ بہتر و افضل یہ ہے کہ حصولِ برکت کے لیے صحابہ کرام یا صحابیات کے مبارک ناموں پر نام رکھیں جائیں البتہ امیمہ نام بہتر ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
   
کتبہ ۔ 
محمد ایاز حسین تسلیمی

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only