بدھ، 27 نومبر، 2024

(کیا انسانی اعضا کو ہبہ کرسکتے ہیں؟)

 (کیا انسانی اعضا کو ہبہ کرسکتے ہیں؟)

االسلام علیکم ورحمتہ الله وبرکاته
امید ہے کہ آپ بخیر وعافیت ہونگے
الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے متعلق کہ عند الضرورۃ اگر کوئی شخص اپنے عضوء کو دوسرے شخص کے لیے ہبہ کرے تو اسکا لگوانا درست ہے یا نہیں؟؟
اور مردہ شخص کے اعضاء زندہ شخص کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟؟
اگر ناجائز قرار دیا جائے تو یہ فقہی قاعدہ ٹوٹ جاتا ہے الضرورات تبیح المحضورات 
علاوہ ازیں قرآن مجید میں ضرورت کے وقت خنزیر کا گوشت کھانے کی اجازت دی گئی ہے تو اسی طرح ضرورت کے وقت دوسرے انسان کا عضوء لگوانا بھی درست ہوسکتا ہے آپریشن وغیرہ کے ذریعے
اور جو آیات قرآنیہ اور احادیث کریمہ اس مسٔلے کی نفی میں وارد ہوئی ہیں ان کو بغیر ضرورت پر محمول کیا جاسکتا ہے 
اگر کوئی حدیث یا کسی امام کا قول اسکی نفی میں ہوں جو ضرورت کے وقت بھی ممانعت پر دلالت کرتا ہوں 
بحوالہ جواب عنایت فرمائیں بڑی مہربانی ہوگی

المستفتی: سعید احمد صدیقی سوجا شریف راجستھان


وعلیکم السلام ورحمۃ الله وبرکاته 
               {بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم}
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصوب:”ہبہ اس کا شیء کا درست ہے جو ملک میں ہو اور انسانی اعضاء اللّٰہ تعالیٰ کی ملک ہے انسان مالک نہیں ہے۔‌ لہذا کسی شخص کے لئے اپنے کسی عضو کا کسی کے لئے ہبہ کرنا جائز نہیں ہے اور نہ دوسرے کے لئے اس کا استعمال جائز ہے۔
اور رہا دوسرے کے لئے انسانی اعضاء کا استعمال کرنا تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ الضرورات تبیح المحضورات سے انسانِ مضطر کو اس حالت میں مردار یا حرام کھانے یا مردہ انسان کو کھانے کی اجازت ہے جس سے جان بچنے کا یقین ہو اور انسانی اعضاء کے استعمال سے جان بچنے کا یقین نہیں ہے اگرچہ غالب گمان ہے اور علاج سے شفا یقینی نہیں ہے تو انسانی اعضاء کا کاٹنا بھی ضرر ہوا اور ”الاشباہ والنظائر“میں ہے کہ”الضرر لایزال بالضرر اھ... یعنی ضرر کو ضرر سے زائل نہیں کیا جاسکتا۔(الفن الأول، القاعدۃ الخامسۃ، جلد ١، صفحہ ٢٥٤، مطبوعہ المکتبۃ الفیصل, دیوبند)۔ اور جس طرح زندہ انسان کے اعضاء کا استعمال جائز نہیں یونہی مردہ انسان کے اعضاء کا استعمال بھی ناجائز ہے۔
         حضرت شیخ نظام الدین اور علماء ہند کی ایک جماعت نے تحریر فرمایا ہے:”اَلْاِنْتِفَاعُ بِأَجْزَاءِ الْآدَمِيِّ لَمْ يَجُزْ، قِيلَ: لِلنَّجَاسَةِ، وَقِيلَ: لِلْكَرَامَةِ، هُوَ الصَّحِيحُ، كَذَا فِي جَوَاهِرِ الْأَخْلَاطِيِّ" ترجمہ: انسانی اعضاء سے نفع اٹھانا جائز نہیں کہا گیا ہے کہ نجاست کی وجہ سے، اور کہا گیا ہے کہ انسان احترام کی وجہ سے، یہی صحیح ہے (الباب الثامن عشر فی التداوی والمعالجات، جلد ٥، صفحہ ٣٥٤، مطبوعہ بولاق مصر المحمیۃ)
         ”مجلس شرعی کے فیصلے“میں ہے کہ:”کوئی عضو انسانی بےکار ہوجائے اور کسی حیوان کا عضو اس کے لیے کارآمد ہو سکتا ہے تو حلال جانور کو شرعی طور پر ذبح کر کے اس کا عضو لگانا جائز ہے۔ اگر حلال مذبوح سے کام نہ چل سکتا ہو تو خنزیر کے علاوہ دوسرے غیر حلال جانور کو شرعی طور پر ذبح کے بعد اس کا متبادل عضو لگایا جا سکتا ہے اور اگر مذبوح سے کام نہ چل سکے تو بحالت اضطرار غیر مذبوح کا عضو بھی لگایا جاسکتا ہے۔ 
        اس سے قبل والے سمینار میں یہ بحث آئی تھی کہ انسان کی جان یا عضو کی ہلاکت جب یقینی یا قریب بہ یقین ہو، اور دوسرے انسان کا عضو لگانے سے اس شخص کا شفایاب ہونا متوقع ہو۔ جیسا کہ آج کل یہ طریقۂ علاج جاری ہے تو شرعا یہ جائز ہے یا نہیں ؟
      مندوبین نے اس پر اظہار خیال کیا کہ دوسرے زندہ انسان کا عضو کاٹ کر استعمال کرنا حالت اضطرار میں بھی جائز نہیں ہوتا۔ ہاں! مضطر کو اس مقدار میں حرام یا مردار حتی کہ انسان میت کا گوشت کھانے پینے کی اجازت ہوتی ہے جس سے وہ جاں بر ہوسکے۔ یہ اجازت اس وقت ہے جب اس کھانے پینے سے اس کی نجات یقینی ہو۔
اس بنیاد پر یہ غور ہوا کہ آج کے تبدیلیِ عضو والے علاج سے شفا یقینی ہوتی ہے یا نہیں ؟
بعض حضرات کی یہ رائے سامنے آئی کہ یقینی تو نہیں مگر مظنون بہ ظن غالب ہے۔
          اس پر یہ کلام ہوا کہ پھر یہ علاج واجب ہونا چاہیے کہ اگر نہ کرے تو گنہ گار ہو جیسے حالت مخمصہ میں حرام  نہ کھائے پیے  اور مرجائے تو گنہ گار ہوتا ہے۔ حالاں کہ علاج کا حکم یہ نہیں ۔ بلکہ کتابوں میں یہ موجود ہے کہ علاج نہ کیا اور مرگیا تو گنہ گار نہ ہو گا۔ اس لیے کہ علاج سے شفا یقینی نہیں۔
         پیوند کاری سے کامیابی کی جو شرح دی گئی ہے، وہ ہمارے حق میں اولاً یقینی نہیں۔ ثانیاً یہ شرح بحیثیت مجموعی ہے۔ آپریشن کے مرحلہ سے شفا تک گزرنے میں اتنے مراحل ہیں کہ ہر ہر مرحلہ پر ہلاکت کا  خطرہ ہوتا ہے ، پھر مریض خاص کے حق میں زیادہ سے زیادہ ظن اور امید کا حصول ہوتا ہے قطع و یقین کا  نہیں، پھر بہت سے حریص، دنیا طلب، اور ظالم و خائن ڈاکٹروں کی زیادتیاں الگ ہیں۔ جن کے ظلم و خیانت اور بے اعتدالی و بے احتیاطی  کے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔
   دوسری طرف جو عضو عطا  کرنے والا تند رست و توانا انسان ہے خاص اس کے حق میں کوئی حاجت و  اضطرار نہیں کہ وہ اپنا عضو دوسرے کو دے، پھر اسے کیوں کر اجازت ہوگی کہ وہ اپنے عضو کی بے حرمتی یا اس کی خرید و فروخت کا معاملہ کرے خصوصاجب کہ وہ اپنے جسم و جان کا مالک بھی نہیں کہ اسے ہبہ کرنے یا بیچنے  کا اختیار ہو۔
ان حالات کے پیش نظر عضو انسان سے عضو انسان کی پیوند کاری کے جواز کا حکم بہت مشکل ہے۔ بلکہ  بر وقت، عدم جواز ہی واضح ہے اور ہم اسی کا حکم دیتے ہیں۔ واللہ تعالی اعلم"(جلد ١، صفحہ ١٨٣-١٨٤، مطبوعہ مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارکپور اعظم گڑھ)
والله تعالیٰ عزوجل و رسوله ﷺ أعلم بالصواب 


کتبه: عبد الوکیل صدیقی نقشبندی پھلودی راجستھان الھند 
خادم: الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان الھند
٢٤ جمادی الاولی ١٤٤٦ھ۔ ٢٧ نومبر ٢٠٢٥ء۔ بروز بدھ

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only