(جمعہ میں کتنی رکعتیں سنت موکدہ ہیں؟)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہکیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے مین کہ کیا نماز جمعہ میں چار رکعت سنت بعدیہ کے بعد نفل سے پہلے دو رکعت پڑھنا سنت مؤکدہ ہے یا غیر مؤکدہ ؟بینوا توجروا
المستفتی محمود احمد قادری
مہنڈر پونچھ جموں و کشمیر الہند
و علیکم السلام ورحمةاللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب
دریافت کردہ صورت میں فرض جمعہ سے پہلے چار رکعتیں اور جمعہ کے بعد چار رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں اور ان کے علاوہ دو رکعتیں سنت غیر مؤکدہ ہیں لیکن ان دو رکعتوں کے پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اس اجمال کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام محمد اور امام قاضی ابویوسف علیہم الرحمہ کے نزدیک بالاتفاق جمعہ کے فرض سے پہلے چار رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں لیکن فرضوں کے بعد والی سنتوں کے بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ امام اعظم اور امام محمد علیہماالرحمہ کے قول پر فرض کے بعد صرف چار رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں۔اور ان کے علاوہ سنتیں نہیں جبکہ امام قاضی ابویوسف علیہ الرحمہ کے نزدیک جمعہ کے فرض کے بعد چار رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں اور پھر ان کے بعد دو رکعت سنتیں ہیں۔لیکن آپ کے نزدیک بھی یہ غیر مؤکدہ ہیں۔اور اسی پر فتوی ہے۔
البتہ ان دو رکعتوں کو پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہیے کیوں کہ اس میں زیادہ فضیلت اور زیادہ احتیاط ہے اور اسی پر شروع سے اکثر علما و مشائخ کا عمل بھی رہا ہے۔ جمعہ کی کل آٹھ رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں چار رکعتیں فرض سے پہلے اور چار فرض کے بعد جیساکہ شرح مشكل الآثار للامام الطحاوی میں ہے:"عن أبي هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من كان مصليا، فليصل قبل الجمعة أربعا، وبعدها أربعا"یعنی: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص نماز جمعہ پڑھے تو اس چاہیے کہ وہ جمعہ سے پہلے چار ( رکعت ) پڑھے اور جمعہ کے بعد چار ( رکعت ) پڑھے! (شرح مشكل الآثار للامام الطحاوي ج ١٠ ص ٢٩٨ )
بخاری شریف کے مشہور شارح قاضی القضاة,محدث محمود بن احمد المعروف بہ حضرت علامہ بدرالدین عینی ( المتوفٰی٤ ذی الحجہ٨٥٥ھ)علیہ الرحمہ جمعہ کے بعد چار رکعت والی احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ”وهو قول أبي حنيفة، ومحمد، وقال أبو يوسف: يصلي أربعا بتسليمة، وركعتين آخرين بتسليمة أخرى" یعنی: اور یہ قول امام اعظم ابو حنیفہ اور امام محمد علیہما الرحمہ کا ہے اور امام ابو یوسف علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ (جمعہ کے بعد )ایک سلام کے ساتھ چار رکعتیں پڑھے, پھر ایک اور سلام کے ساتھ دو رکعتیں ( مزید ) پڑھے ۔(شرح ابی داؤد للعینی ، کتاب الصلوٰۃ ، باب الصلوٰۃ بعد الجمعۃ ، جلد ٤ ، صفحہ ٤٧٤، مطبوعہ ریاض)
بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں حضرت علامہ امام علاءالدين أبو بكر بن مسعود الكاساني الحنفي الملقب بہ بملك العلماء(المتوفٰی٥٨٧هـ) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’واما السنۃ قبل الجمعۃ وبعدھا فقد ذکر فی ”الاصل “و اربع قبل الجمعۃ واربع بعدھا و کذا ذکر الکرخی‘‘یعنی: رہا مسئلہ نماز جمعہ سے پہلے اور بعد کی سنتوں کا تو اس تعلق سے”کتاب الاصل“میں بیان کیا گیا کہ چار رکعات جمعہ سے پہلے اور چار رکعات جمعہ کے بعد ( سنت مؤکدہ ) ہیں اور ایسا ہی امام کرخی علیہ الرحمہ نے بیان کیا ہے۔ (بدائع الصنائع،کتاب الصلوٰۃ ، فصل :صفۃ القراءۃ فی سنن الصلوٰۃ ،ج١،ص٢٨٥،دار الکتب العلمیہ ، بیروت )
جمعہ کے بعد چار رکعت سنتیں ہیں ان کے علاوہ نہیں جیساکہ بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں حضرت علامہ امام علاءالدين أبو بكر بن مسعود الكاساني الحنفي الملقب بہ بملك العلماء(المتوفٰی٥٨٧هـ) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:’’انا نقول السنۃ بعدھا اربع رکعات لا غیر لما روینا‘‘ یعنی:ہم کہتے ہیں کہ جمعہ کے بعد سنت صرف چار ہی رکعتیں ہیں,ان کے علاوہ نہیں,اس حدیث کی وجہ سے جو اس بارے میں ہم نے روایت کی ہے۔(بدائع الصنائع،کتاب الصلوٰۃ ، فصل :صفۃ القراءۃ فی سنن الصلوٰۃ ، جلد١،ص٢٨٥دار الکتب العلمیہ ، بیروت)
جمعہ کی دو رکعتوں کے بارے میں سنن ابن ماجہ میں ہے :’’عن سالم عن ابیہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یصلی بعد الجمعۃ رکعتین ‘‘ یعنی: حضرت سالم اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبیِ کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ سلم جمعہ کے بعد دو رکعتیں اَدا فرماتے تھے۔(سنن ابن ماجہ ،کتاب الجمعہ، ص ٧٩ مطبوعہ کراچی)
بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع میں حضرت علامہ امام علاءالدين أبو بكر بن مسعود الكاساني الحنفي الملقب بہ بملك العلماء(المتوفٰی٥٨٧هـ) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :’’قال ابو یوسف ینبغی ان یصلی اربعا ثم رکعتیں کذا روی عن علی رضی اللہ عنہ‘‘یعنی: حضرت امام ابو یوسف علیہ الرحمہ نے فرمایا :مناسب یہ ہے کہ (نماز جمعہ کے بعد ) چار رکعت پڑھے ، پھر دو رکعت ( بھی ) پڑھے,جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے۔ (بدائع الصنائع،کتاب الصلوٰۃ ، فصل :صفۃ القراءۃ فی سنن الصلوٰۃ ، جلد١ ص ٢٨٥ دار الکتب العلمیہ بیروت )
بحرالرائق شرح کنزالدقائق میں منیةالمصلی کے حوالے سے حضرت علامہ زین الدین بن ابراہیم بن محمد الشہیر بابن نجیم مصری (المتوفٰی ٩٧٠هـ)علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’وفی منیۃ المصلی والافضل عندنا ان یصلی اربعا ثم رکعتین‘‘ یعنی: منیۃ المصلی میں ہے کہ اور افضل ہمارے نزدیک یہ ہے کہ (جمعہ کے فرض کے بعد) چار رکعت پڑھے پھر دو رکعات پڑھے۔(البحرالرائق شرح کنزالدقائق،كتاب الصلوٰۃ ، باب الوتر و النوافل ، جلد٢صفحہ٥٣)
مندرجہ بالا حوالہ جات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ جمعہ کے فرض سے پہلے چار رکعتیں اور فرض کے بعد چار رکعتیں کل آٹھ رکعتیں ضرور سنت مؤکدہ ہیں۔اور جمعہ کے بعد کی دو رکعتیں اگرچہ مفتی بہ و راجح قول کے مطابق سنت مؤکدہ نہیں لیکن احوط اثبت افضل اور مختار یہی ہے کہ یہ دو رکعتیں بھی پڑھی جائیں۔کیوں کہ شروع سے ہی اس پر مشائخ کا عمل رہا ہے!
واللہ تعالٰی و رسولہ الاعلٰی اعلم بالصواب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم
کتبہ
سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی
شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند
بتاریخ ٢٠ جمادی الاول ١٤٤٦ھ
بمطابق ٢٣ نومبر ٢٠٢٤ء
بروز ہفتہ ( سنیچر )
شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند
بتاریخ ٢٠ جمادی الاول ١٤٤٦ھ
بمطابق ٢٣ نومبر ٢٠٢٤ء
بروز ہفتہ ( سنیچر )
ایک تبصرہ شائع کریں