جمعہ، 20 دسمبر، 2024

(ترک واجب پر مقتدی نے سجدہ سہوکیاتو کیاحکم ہے؟)

(ترک  واجب پر مقتدی نے سجدہ سہوکیاتو کیاحکم ہے؟)

 اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ 
کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں "مقتدی نے ظہر کی چار رکعت نماز فرض اول تا آخر امام کے پیچھے ادا کی مگر قعدہء اولی میں بھول کر درود پڑھ لیا یا کوٸی اور واجب بھولے سے چھوٹ گیا اب امام کے چار رکعت پر سلام پھیرنے کے بعد مقتدی نے سلام نہیں پھیرا بلکہ علم نہ ہونے کی وجہ سے نماز کو جاری رکھتے ہوۓ اپنا علیحدہ سجدہءسہو کرلیا اس کی نماز ہوگئی یا امام کی مخالفت کی وجہ سے واجب الاعادہ ہوگی؟جواب ارشاد فرماٸیں! 
المستفتی: سید محمد حسن بخاری احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور،پنجاب 
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوھاب 
صورت مذکورہ میں نماز ہوگئ البتہ مقتدی کو ایسا نہیں کرنا چاہیےتھا! اس اجمال کی تفصیل کچھ اس طرح ہے، مقتدی سے حالت اقتدا میں جب کوئی واجب بھولے سے رہ جاۓ یا قعدہءاولی میں درود پڑھ لے تو اس پر اصلاً سجدہءسہو واجب نہیں ہوتا اور نماز ہوجاتی ہے،کیوںکہ وہ اپنے امام کے تابع ہوتا ہے۔لیکن اگر مقتدی امام کے سلام پھیرنے سے پہلے سجدہءسہو کرتا ہے تو ضرور مخالف کہلاۓگا،اور ایسی صورت میں نماز مکروہ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی،اور اگر امام کے سلام پھیرنےکےبعد سجدہ کرتا ہے تو مخالف نہ ہوگا،لیکن سجدےکا محل فوت ہو جاۓگا! 
چنانچہ حضرت علامہ امام علاءالدين أبوبكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (المتوفى ٥٨٧ھ) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"فأما المقتدي إذا سها في صلاته فلا سهو عليه؛ لأنه لايمكنه السجود؛ لأنه إن سجد قبل السلام كان مخالفًا للإمام، وإن أخره إلى ما بعد سلام الإمام يخرج من الصلاة بسلام الإمام"یعنی: رہا یہ مسئلہ کہ جب مقتدی اپنی نماز میں (کوئی واجب) بھول جاۓ تو اس پر سجدہءسہو لازم نہیں کیوں کہ وہ (حالت اقتدا میں)  سجدہ نہیں کرسکتا،کیونکہ اگر سجدہ کرےگا تو امام کا مخالف مانا جاۓگا،اور اگر امام کے سلام پھیرنے کے بعد تک مؤخر کرتا ہے،تو امام کے سلام کے ساتھ ہی نماز سے باہر ہو جاۓگا!(بدائع الصنائع،کتاب الصلاۃ، فصل بيان من يجب عليه سجود السهو ومن لايجب عليه سجود السهو، ج١ص١٧٥)

صاحب النھرالفائق حضرت امام سراج الدین حضرت عمر بن ابراہیم ابن نجیم حنفی (المتوفٰی٦ربیع الاول شریف ١٠٠٥ھ بروز سہ شنبہ) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:”لا يجب على المقتدی بسهوہ لأنه إن سجد وحده أي: قبل السلام فقد خالف الإمام فلو تابعه انعكس الموضوع ولو أخره إلى ما بعد سلام الإمام فات محله لخروجہ بسلامہ"یعنی:مقتدی پر اپنے بھولنے کی وجہ سے سجدہءسہو واجب نہیں، کیونکہ اگر وہ اکیلے ہی سجدہ کرلے یعنی امام کے سلام پھیرنے سے پہلے ہی سجدہ کرلے،تو اس نے امام کی مخالفت کی اور اگر امام،مقتدی کی اتباع کرتا ہے،پھر تو پورا موضوع ہی بدل جاۓگا( یعنی اس صورت میں امام، مقتدی بن جائےگا)اور اگر مقتدی (سجدہءسہو) امام کے سلام پھیرنے کےبعد تک مؤخر کرتا ہے،تو اس کے سلام پھیرنے ساتھ ہی نماز سے باہر ہونے کہ وجہ سےاس (سجدہ سہو) کا محل فوت ہوجائےگا!(النھر الفائق ، کتاب الصلاۃ، ج١ صفحہ ٣٢٦ دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)واللہ تعالٰی و رسولہ الاعلٰی اعلم بالصواب 
عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم 
کتبہ:سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی 
شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ 
داہود شریف الھند
بتاریخ١٥جمادی الآخر١٤٤٦ھ
بمطابق١٨دسمبر٢٠٢٤
بروز چہار شنبہ (بدھ)

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only