(قرض خواہ کو زکوۃ کارقم دیکر قرض لےسکتے ہیں؟)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ خالد کے مزمل پر 50000 پچاس ہزار روپے قرض ہیں ، اب مزمل کے حالات غربت والے ہو گئے ہیں اور مزمل قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے نیز مزمل مستحق زکوۃ بھی ہے ، اور بعض افراد سے مزمل نے زکوٰۃ لی بھی ہے ،
لہذا خالد نے مزمل کے ساتھ ایسی صورت اپنائی کہ خالد کی زکوٰۃ بھی ادا ہو گئی اور مزمل کا قرض بھی ادا ہو گیا ،
"" وہ صورت یہ ہے کہ خالد نے مزمل کو پہلے بتایا کہ میں آپکو 25000 بچیس ہزار روپے بطور زکوٰۃ دوں گا جب تمہارے ہاتھ میں بچیس ہزار آجائیں تو تم پچیس ہزار کے مالک بن جاؤ گے, میری پچیس ہزار کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ، پھر چند منٹ کے بعد میں تم سے اپنے قرض مانگوں گا تم مجھے پچیس ہزار قرض ادا کر دینا ، اس سے تمہارا پچیس ہزار کا قرض ادا ہو جائے گا""
پھر ہم کچھ منٹ کے بعد یہی صورت دوبارہ اپنائیں گے یعنی اسی طرح لین دین کرینگے تو تمہارا پچاس ہزار کا قرض اور میری پچاس ہزار کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ، مزمل نے اس بات کو قبول کر لیا ، پھر خالد نے اسی طرح سے معاملہ کیا ، تو کیا اس طرح سے قرض اور زکوٰۃ دونوں ادا ہو جائیں گے یا نہیں ؟؟
بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ خالد کو مزمل سے زکوٰۃ دینے کے بعد قرض لینے کے لیے واپس کرنے کی شرط نہیں لگانا چاہیے ،
مفتیان شرع کی بارگاہ میں عرض ہے شریعت مطہرہ کی روشنی میں مدلل و مفصل جواب دے کر ممنون و مشکور ہوں ،
السائل ۔۔ محمد یامین جعفری ۔
الساکن ۔ بہیڑی ضلع بریلی ۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
اللہم ہدایۃ الحق والصواب الجواب بعون الملک الوھاب ۔
صورت مسئولہ میں شریعت طاہرہ کی روشنی میں خالد کی پچاس ہزار زکوٰۃ اور مزمل کا بچاس ہزار کا قرض ادا ہو جائے گا ،
کتب فقہ و فتاویٰ میں فقہاء کرام نے زکوٰۃ کی ادائیگی کی صحت کے لئے تملیک کی شرط لگائی ہے یعنی فقیر شرعی کو اپنے مال کا مالک بنا دیا جائے اس طور پر کہ کسی طرح سے بھی اس مال میں مالک کا عمل و دخل نہ ہو ، کامل طریقہ پر تملیک پالی جائے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ،
لہذا مذکورہ صورت میں خالد نے جب مزمل کے ہاتھ میں اپنا مال زکوٰۃ کی نیت سے دے دیا تو شرعاً زکوٰۃ ہاتھ میں رکھتے ہی ادا ہو گئی ،
اب رہی بات قرض کی تو جب مزمل اس بچیس ہزار کا مالک بن گیا تو اب اگر وہ بچیس ہزار روپے خالد کا واپس کرتا ہے تو بلا شک و شبہ مزمل کا قرض ادا ہو جائے گا ۔
نوٹ۔ رہی بات یہ کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ خالد کو قرض لینے کے لیے واپس کرنے کی شرط نہیں لگانا چاہیے یعنی مزمل کو پوری صورت حال سمجھانا نہیں چاہئے ، بس قرض دینے کے بعد اس سے اپنا قرض کا مطالبہ کر لینا چاہیے ؟
خالد نے اگر چہ مزمل کو پوری صورت حال سمجھا دی تو اس سے زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ، کیونکہ مذکورہ صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی کی تمام شرائط پائی جا رہی ہیں ،
مزید یہ کہ خالد کا یہ صورت حال سمجھانا گویا کہ مزمل سے اپنا قرض طلب کرنا ہے ، اور شریعت میں مقروض سے اپنا قرض طلب کرنے کی کہیں ممانعت نہیں ہے ، لہذا یہ اس طرح سے سمجھانا جائز و درست ہے ۔
نیز اس سے دونوں کا فائدہ ہو رہا ہے ، ایک کی زکوۃ کی ادائیگی ارو دوسرے کے قرض کی ادائیگی ہو رہی ہے ۔
علامہ سید احمد بن اسمعیل الطحطاوی تحریر فرماتے ہیں ۔
"""والحیلۃ ان یعطی المدیون زکوتہ ثم یاخذھا عن دینہ ولو امتنع المدیون مد یدہ واخذھا """
(((حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الزکوۃ ص 715 مطبوعہ دار الکتاب دیوبند)))
ترجمہ ۔۔ جواز کی صورت یہ ہے کہ صاحب قرض مقروض کا اپنے مال کی زکوٰۃ دے پھر اس سے اپنا قرض لے لے ، اگر مقروض قرض دینے سے انکار کرے تو صاحب مال چھین لے اور اپنا مال وصول کرے ۔
فقیہ ملت مفتی جلال الدین صاحب امجدی علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ زکوٰۃ فقیر کو اس شرط پر دینا کہ وہ رقم اسے واپس کر دےگا ایسا کرنے پر فقیر کو کچھ رقم دی جائے گی ، تو آپنے اس کے جواب میں تحریر فرمایا ۔
"""زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ، اور فقیر سے زکوٰۃ دینے والے کا یہ شرط کرنا لغو ہے کہ وہ بعد تملیک واپس کردےگا ۔ زکوٰۃ کے مال کا فقیر مالک ہو جاتا ہے اسے اختیار ہے چاہے واپس کرے یا نہ کرے """
مزید دوسرے مقام پر ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں ۔
"""صورت مسئولہ میں مستحق زکوۃ کو قرض دینا پھر زکوٰۃ کی رقم اسے دئے بغیر قرض میں مجرا کرنا یہ جائز نہیں ہے ۔ جواز کی صورت یہ ہے کہ اسے زکوٰۃ کا مال دے جب وہ مال پر قبضہ کر لے تو اس سے اپنا قرض وصول کرے اگر وہ دینے سے انکار کرے تو ہاتھ پکڑ کر چھین بھی سکتا ہے """
(((فتاوی فیض الرسول جلد اول زکوٰۃ کا بیان ص 479 384 ))
مذکورہ دلائل و براہین سے ثابت ہوا کہ صورت مسئولہ میں خلاصہ یہ ہے کہ خالد کا مزمل کا مکمل تفصیل بتانا پھر اس سے اپنا قرض وصول کرنے کے لیے کہنا بلاشبہ جائز و درست ہے ، اور مزمل کو بھی چاہیے کہ اپنا قرض زکوۃ وصول کرنے کے بعد فورا ادا کرے، اور اگر زکوٰۃ لینے کے بعد مزمل کی نیت بدل جائے اور قرض دینے سے منع کرے تو خالد جبرا اور زبردستی چھین بھی سکتا ہے ۔ لہذ اس کا حق ہے ، اپنا حق کسی طرح بھی لیا جا سکتا ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب ۔
کتبہ ۔۔ محمد ایاز حسین تسلیمی بہیڑوی۔
ساکن ۔ محلہ ٹانڈہ متصل مسجد مدار اعظم بہیڑی ضلع بریلی
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ خالد کے مزمل پر 50000 پچاس ہزار روپے قرض ہیں ، اب مزمل کے حالات غربت والے ہو گئے ہیں اور مزمل قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا ہے نیز مزمل مستحق زکوۃ بھی ہے ، اور بعض افراد سے مزمل نے زکوٰۃ لی بھی ہے ،
لہذا خالد نے مزمل کے ساتھ ایسی صورت اپنائی کہ خالد کی زکوٰۃ بھی ادا ہو گئی اور مزمل کا قرض بھی ادا ہو گیا ،
"" وہ صورت یہ ہے کہ خالد نے مزمل کو پہلے بتایا کہ میں آپکو 25000 بچیس ہزار روپے بطور زکوٰۃ دوں گا جب تمہارے ہاتھ میں بچیس ہزار آجائیں تو تم پچیس ہزار کے مالک بن جاؤ گے, میری پچیس ہزار کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ، پھر چند منٹ کے بعد میں تم سے اپنے قرض مانگوں گا تم مجھے پچیس ہزار قرض ادا کر دینا ، اس سے تمہارا پچیس ہزار کا قرض ادا ہو جائے گا""
پھر ہم کچھ منٹ کے بعد یہی صورت دوبارہ اپنائیں گے یعنی اسی طرح لین دین کرینگے تو تمہارا پچاس ہزار کا قرض اور میری پچاس ہزار کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ، مزمل نے اس بات کو قبول کر لیا ، پھر خالد نے اسی طرح سے معاملہ کیا ، تو کیا اس طرح سے قرض اور زکوٰۃ دونوں ادا ہو جائیں گے یا نہیں ؟؟
بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ خالد کو مزمل سے زکوٰۃ دینے کے بعد قرض لینے کے لیے واپس کرنے کی شرط نہیں لگانا چاہیے ،
مفتیان شرع کی بارگاہ میں عرض ہے شریعت مطہرہ کی روشنی میں مدلل و مفصل جواب دے کر ممنون و مشکور ہوں ،
السائل ۔۔ محمد یامین جعفری ۔
الساکن ۔ بہیڑی ضلع بریلی ۔
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
اللہم ہدایۃ الحق والصواب الجواب بعون الملک الوھاب ۔
صورت مسئولہ میں شریعت طاہرہ کی روشنی میں خالد کی پچاس ہزار زکوٰۃ اور مزمل کا بچاس ہزار کا قرض ادا ہو جائے گا ،
کتب فقہ و فتاویٰ میں فقہاء کرام نے زکوٰۃ کی ادائیگی کی صحت کے لئے تملیک کی شرط لگائی ہے یعنی فقیر شرعی کو اپنے مال کا مالک بنا دیا جائے اس طور پر کہ کسی طرح سے بھی اس مال میں مالک کا عمل و دخل نہ ہو ، کامل طریقہ پر تملیک پالی جائے تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ،
لہذا مذکورہ صورت میں خالد نے جب مزمل کے ہاتھ میں اپنا مال زکوٰۃ کی نیت سے دے دیا تو شرعاً زکوٰۃ ہاتھ میں رکھتے ہی ادا ہو گئی ،
اب رہی بات قرض کی تو جب مزمل اس بچیس ہزار کا مالک بن گیا تو اب اگر وہ بچیس ہزار روپے خالد کا واپس کرتا ہے تو بلا شک و شبہ مزمل کا قرض ادا ہو جائے گا ۔
نوٹ۔ رہی بات یہ کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ خالد کو قرض لینے کے لیے واپس کرنے کی شرط نہیں لگانا چاہیے یعنی مزمل کو پوری صورت حال سمجھانا نہیں چاہئے ، بس قرض دینے کے بعد اس سے اپنا قرض کا مطالبہ کر لینا چاہیے ؟
خالد نے اگر چہ مزمل کو پوری صورت حال سمجھا دی تو اس سے زکوٰۃ کی ادائیگی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ، کیونکہ مذکورہ صورت میں زکوٰۃ کی ادائیگی کی تمام شرائط پائی جا رہی ہیں ،
مزید یہ کہ خالد کا یہ صورت حال سمجھانا گویا کہ مزمل سے اپنا قرض طلب کرنا ہے ، اور شریعت میں مقروض سے اپنا قرض طلب کرنے کی کہیں ممانعت نہیں ہے ، لہذا یہ اس طرح سے سمجھانا جائز و درست ہے ۔
نیز اس سے دونوں کا فائدہ ہو رہا ہے ، ایک کی زکوۃ کی ادائیگی ارو دوسرے کے قرض کی ادائیگی ہو رہی ہے ۔
علامہ سید احمد بن اسمعیل الطحطاوی تحریر فرماتے ہیں ۔
"""والحیلۃ ان یعطی المدیون زکوتہ ثم یاخذھا عن دینہ ولو امتنع المدیون مد یدہ واخذھا """
(((حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الزکوۃ ص 715 مطبوعہ دار الکتاب دیوبند)))
ترجمہ ۔۔ جواز کی صورت یہ ہے کہ صاحب قرض مقروض کا اپنے مال کی زکوٰۃ دے پھر اس سے اپنا قرض لے لے ، اگر مقروض قرض دینے سے انکار کرے تو صاحب مال چھین لے اور اپنا مال وصول کرے ۔
فقیہ ملت مفتی جلال الدین صاحب امجدی علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ زکوٰۃ فقیر کو اس شرط پر دینا کہ وہ رقم اسے واپس کر دےگا ایسا کرنے پر فقیر کو کچھ رقم دی جائے گی ، تو آپنے اس کے جواب میں تحریر فرمایا ۔
"""زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ، اور فقیر سے زکوٰۃ دینے والے کا یہ شرط کرنا لغو ہے کہ وہ بعد تملیک واپس کردےگا ۔ زکوٰۃ کے مال کا فقیر مالک ہو جاتا ہے اسے اختیار ہے چاہے واپس کرے یا نہ کرے """
مزید دوسرے مقام پر ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں ۔
"""صورت مسئولہ میں مستحق زکوۃ کو قرض دینا پھر زکوٰۃ کی رقم اسے دئے بغیر قرض میں مجرا کرنا یہ جائز نہیں ہے ۔ جواز کی صورت یہ ہے کہ اسے زکوٰۃ کا مال دے جب وہ مال پر قبضہ کر لے تو اس سے اپنا قرض وصول کرے اگر وہ دینے سے انکار کرے تو ہاتھ پکڑ کر چھین بھی سکتا ہے """
(((فتاوی فیض الرسول جلد اول زکوٰۃ کا بیان ص 479 384 ))
مذکورہ دلائل و براہین سے ثابت ہوا کہ صورت مسئولہ میں خلاصہ یہ ہے کہ خالد کا مزمل کا مکمل تفصیل بتانا پھر اس سے اپنا قرض وصول کرنے کے لیے کہنا بلاشبہ جائز و درست ہے ، اور مزمل کو بھی چاہیے کہ اپنا قرض زکوۃ وصول کرنے کے بعد فورا ادا کرے، اور اگر زکوٰۃ لینے کے بعد مزمل کی نیت بدل جائے اور قرض دینے سے منع کرے تو خالد جبرا اور زبردستی چھین بھی سکتا ہے ۔ لہذ اس کا حق ہے ، اپنا حق کسی طرح بھی لیا جا سکتا ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب ۔
کتبہ ۔۔ محمد ایاز حسین تسلیمی بہیڑوی۔
ساکن ۔ محلہ ٹانڈہ متصل مسجد مدار اعظم بہیڑی ضلع بریلی
ایک تبصرہ شائع کریں