(رضاعی پھوپھی سے نکاح کرناکیساہے)
الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ زید نے پہلی شادی ہندہ سے کیا، اس سے ایک لڑکا بکر اور ایک لڑکی خالدہ پیدا ہوئے، ہندہ کے انتقال کے بعد زید نے محمودہ سے شادی کی، زید کے بیٹے بکر کے یہاں ایک بچہ ناصر پیدا ہوا، اور خالدہ کے یہاں ایک بچی صائمہ پیدا ہوئی، صائمہ نے زید کی دوسری بیوی محمودہ کا دودھ پیا ہے، تو کیا اب زید کے بیٹے کے بیٹے یعنی ناصر کا نکاح زید کی بیٹی کی بیٹی صائمہ سے ہوسکتا ہے؟ اگر ناصر اور صائمہ کا نکاح آپس میں ہوسکتا ہے تو بہار شریعت کے اس مسئلے کا کیا مطلب’’بچہ نے جس عورت کا دودھ پیا وہ اس بچہ کی ماں ہو جائے گی اور اس کا شوہر (جس کا یہ دودھ ہے یعنی اُس کی وطی سے بچہ پیدا ہوا جس سے عورت کو دودھ اترا) اس دودھ پینے والے بچہ کا باپ ہوجائے گا اور اس عورت کی تمام اولادیں اس کے بھائی بہن خواہ اسی شوہر سے ہوں یا دوسرے شوہر سے، اس کے دودھ پینے سے پہلے کی ہیں یا بعد کی یا ساتھ کی اور عورت کے بھائی، ماموں اور اس کی بہن خالہ۔ يوہيں اس شوہرکی اولادیں اس کے بھائی بہن اور اُس کے بھائی اس کے چچا اور اُس کی بہنیں، اس کی پھوپیاں خواہ شوہر کی یہ اولادیں اسی عورت سے ہوں یا دوسری سے۔ يوہيں ہر ایک کے باپ ،ماں اس کے دادا دادی، نانا ،نانی‘‘(ج۲، ص ۳۷، دودھ کے رشتہ کا بیان)
اور اگر یہ نکاح جائز نہیں ہے تو پھر فقہ کی ان دونوں عبارتوں کا کیا مطلب ہے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سوتیلی ماں کی ماں اس کی بیٹی اس کی بہن سب حلال ہیں اور جب سوتیلی ماں کی حقیقی بیٹی حلال ہے تو سوتیلی دادی کی رضاعی بیٹی بدرجۂ اَولیٰ حلال ہے۔
اصل عبارت یہ ہے:’’لا تحرم بنت زوج الام ولا امہ ولا ام زوجۃ الاب ولا بنتھا‘‘(فتاویٰ خیریہ، ج ۱، ص ۲۳)
’’سوتیلی ماں کی ماں اور اس کی بیٹی اور اس کی بہن سب حلال ہیں ‘‘(فتاویٰ رضویہ، ج۵، ص ۲۱۷)
نوٹ: سائل سے وضاحت لینے پر معلوم ہوا کہ صائمہ کو دودھ پلانے سے پہلے محمودہ کو چار بچے زید سے ہوچکے ہیں۔
(المستفتی: مصطفی وارث بھولا پور شنکر پور، ضلع بستی یوپی)
باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب: بیان کردہ صورت میں ناصر کا نکاح صائمہ سے جائز نہیں، کیونکہ صائمہ اپنے نانا(زید)کی دوسری بیوی محمودہ کا دودھ پینے کی وجہ سے زید کی رضاعی بیٹی ہوگئی اور زید کی اولاد بشمول بکر اس کے رضاعی بھائی بہن ہوگئے جیسا کہ سوال میں ’’بہار شریعت‘‘ کے ذِکر کئے گئے جزئیہ ہی سے مستفاد ہے۔
اور علامہ نظام الدین حنفی متوفی ۱۰۹۲ھ اور علمائے ہند کی ایک جماعت نے لکھا ہے:وهذه الحرمة كما تثبت في جانب الأم تثبت في جانب الأب وهو الفحل الذي نزل اللبن بوطئه كذا في الظهيرية. يحرم على الرضيع أبواه من الرضاع وأصولهما وفروعهما من النسب والرضاع جميعا حتى أن المرضعة لو ولدت من هذا الرجل أو غيره قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت رضيعا أو ولد لهذا الرجل من غير هذه المرأة قبل هذا الإرضاع أو بعده أو أرضعت امرأة من لبنه رضيعا فالكل إخوة الرضيع وأخواته وأولادهم أولاد إخوته وأخواته وأخو الرجل عمه وأخته عمته وأخو المرضعة خاله وأختها خالته وكذا في الجد والجدة كذا في التهذيب۔(الفتاوی الھندیۃ، ۱/۳۴۳)
یعنی، رضاعت کی حرمت جیسے والدہ کی جانب میں ثابت ہوتی ہے اسی طرح باپ کی جانب میں بھی ثابت ہوگی اور اس سے مراد وہ شخص ہے جس کی وطی سے عورت کو دودھ اترا ہو، ايسا ہی ’’ظہیریہ‘‘ میں لکھا ہے۔ دودھ پینے والے پر رضاعی ماں باپ اور ان دونوں کے نسبی اور رضاعی اصول و فروع سب حرام ہیں، یہاں تک کہ دودھ پلانے والی عورت کا موجود ہ خاوند سے یا کسی دوسرے سے، دودھ پلانے سے پہلے یا بعد کا بچہ ہو یا اس نے کسی بچے کو دودھ پلایا ہو، یا اس عورت کے خاوند کی کوئی اولاد اس عورت سے ہو یا کسی اور سے ہو، دودھ پلانے سے پہلے کی ہو یا بعد کی ہو، یا عورت نے اس مرد سے اتر ے ہوئے دودھ کو کسی بچے کو پلایا ہو، تو یہ تمام، دودھ پینے والے بچے کے بہن بھائی ہوں گے، اور ان کی اولاد اس کے بھائی بہن کی اولاد کہلائے گی، اور رضاعی باپ کا بھائی اس کا چچا اور بہن اس کی پھوپھی، اور رضاعی ماں کا بھائی اس کا ماموں اور بہن اس کی خالہ کہلائے گی، اسی طرح یہ حرمت دادا اور دادی میں بھی ثابت ہوگی، یُوں ہی ’’تہذیب‘‘ میں لکھا ہے۔
اس اعتبار سے زید کا بیٹا بکر اور صائمہ دونوں آپس میں رضاعی بہن بھائی ہوئے، اور صائمہ اپنے رضاعی بھائی کے بیٹے ناصر کی رضاعی پھوپھی ہوئی، اور جس طرح حقیقی پھوپھی سے نکاح حرام ہے، جیسا کہ قرآنِ کریم میں ہے: حُرِّمَتْ عَلَیْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ وَ بَنٰتُكُمْ وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ (النسآء، ۴/۲۳)
ترجمہ کنز الایمان: حرام ہوئیں تم پر تمہاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں۔
اسی طرح رضاعی پھوپھی سے بھی نکاح حرام ہے، کیونکہ حدیث شریف میں ہے: يَحْرُمُ مِنَ الرَّضَاعِ مَا يَحْرُمُ مِنَ النَّسَب۔(صحیح البخاری، ۳/۱۷۰)
یعنی، جو رشتہ نسب سے حرام ہوتا ہے وہ دودھ کے رشتہ سے بھی حرام ہوتا ہے۔
اور علامہ کمال الدین ابن ہمام حنفی متوفی ۸٦۱ھ، علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی متوفی ۹۷۰ھ اور مُلّا علی قاری حنفی متوفی ۱۰۱۴ھ لکھتے ہیں: لأنه أحال ما يحرم بالرضاع على ما يحرم بالنسب، وما يحرم بالنسب هو ما تعلق به خطاب تحريمه وقد تعلق بما عبر عنه بلفظ الأمهات والبنات {وَ اَخَوٰتُكُمْ وَ عَمّٰتُكُمْ وَ خٰلٰتُكُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ} [النسآء: ۲۳] فما كان من مسمى هذه الألفاظ متحققا في الرضاع حرم فيه۔ (واللفظ للأول)(مرقاۃ المفاتیح، ۵/۲۰۷۷)(فتح القدیر، ۳/۴۴۷)(بحر الرائق، ۳/۲۴۲)
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ کی حرمتوں کو نسب کی حرمتوں پر حوالہ فرمایا کہ جو رشتہ نسب سے حرام ہے وہ دودھ کے رشتہ سےبھی حرام ہے، اور نسب سے وہ حرام ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کا خطاب حرام کرنے کے ساتھ متعلق ہوا، اور وہ ان سے متعلق ہوا ہے، جن پر ماں اور بیٹی اور بہن اور پھوپھی اور خالہ اور بھتیجی اور بھانجی کا لفظ صادق آئے تو دودھ کے رشتوں میں جن جن پر یہ لفظ صادق آئیں وہ بھی حرام ہیں۔
اس تفصیل سے صاف ظاہر ہے کہ سائل نے جن عبارات کو نقل کرکے جو استدلال کیا ہے کہ ’’جب سوتیلی ماں کی حقیقی بیٹی حلال ہے تو سوتیلی دادی کی رضاعی بیٹی بدرجۂ أولیٰ حلال ہے‘‘، وہ درست نہیں کیونکہ استفتاء میں ذِکر کردہ ’’خیریہ‘‘ اور ’’فتاویٰ رضویہ‘‘ کی عبارات میں جن عورتوں سے نکاح کو جائز قرار دیا گیا ہے وہ اس صورت میں ہے کہ جب اُن سے صرف یہی رشتہ ہو یعنی رضاعت وغیرہ کسی اور سبب سےحرمت کا رشتہ قائم نہ ہو، جب کہ صورتِ مسئولہ میں بکر کے بیٹے(ناصر) کا خالدہ کی بیٹی(صائمہ)سے رضاعت کا رشتہ قائم ہے کہ وہ اس کی رضاعی پھوپھی ہے جس سے نکاح بلاشبہ ناجائز وحرام ہے، اس لئے عبارات میں کوئی تعارض اور ٹکراؤ نہیں ہے، بلکہ ہر ایک اپنے محمل پر صحیح وبجا ہے۔واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ:
محمد اُسامہ قادری
پاکستان،کراچی
پیر،۲۹/جمادی الأولیٰ،۱۴۴۶ھ۔۱/دسمبر،۲۰۲۴م
ایک تبصرہ شائع کریں