بدھ، 18 دسمبر، 2024

(کیا بالغ امام نابالغوں کی امات کرسکتاہے؟)

(کیا بالغ امام نابالغوں کی امات کرسکتاہے؟)
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ "کیا بالغ امام نابالغ بچوں کی امامت کر سکتا ہے؟"
المستفتی: محمد سبطین برکاتی داہود گجرات

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوھاب

     بالغ امام،نابالغ بچوں کی امامت کر سکتا ہے جبکہ نابالغ سمجھ دار ہوں،خواہ عید کی نماز ہو یا پنج وقتی نماز،خواہ امام کے ساتھ ایک ہی فرد ہو یا ایک سے زائد.چنانچہ حضرت علاءالدين أبوبكر بن مسعود بن أحمد الكاساني الحنفي (المتوفى ٥٨٧ھ) علیہ الرحمہ فرماتے:"فاقل من تنعقد بہ الجماعۃ اثنان، وھو ان یکون مع الامام واحد، سواء کان ذلک الواحد رجلاً، او امرأۃ، او صبیاً یعقل واما المجنون و الصبی الذی لا یعقل فلا عبرۃ بھما؛ لانھما لیسا من اھل الصلاۃ فکانا ملحقین بالعدم۔“یعنی: کم سے کم دو افراد کے ساتھ جماعت منعقد ہو جاتی ہے  اور وہ امام کے ساتھ کسی بھی ایک شخص کا ہونا ہے اب چاہے  وہ ایک مرد ہو یا عورت ہو یا سمجھدار بچہ ہو،لیکن پاگل اور غیر عاقل بچے کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ یہ نماز کے اہل نہیں ہیں گویا یہ نہ ہونے کے برابر ہے. (بدائع الصنائع، کتاب الصلاۃ، ج١ص٢٥٦مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ)

    فقیہ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"بالغ امام نا بالغوں کی امامت کر سکتا ہے اسی طرح ایک بالغ اور چند نابالغ مقتدیوں کی بھی بالغ امامت کر سکتا ہے.(فتاویٰ فیض الرسول ج١ صفحہ٢٩٢، دار الاشاعت فیض الرسول براؤں شریف)واللہ تعالٰی و رسولہ الاعلٰی اعلم بالصواب 

کتبہ 
سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی 
شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند
بتاریخ١٠جمادی الآخر١٤٤٦ھ
بمطابق١٢دسمبر٢٠٢٤
بروز جمعہ

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only