منگل، 31 دسمبر، 2024

( شریعت میں اجتہاد اور قیاس کی کیا اہمیت ہے؟)

 ( شریعت میں اجتہاد اور قیاس کی کیا اہمیت ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔ کیا فر ما تے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ شریعت میں اجتہاد اور قیاس کی کیا اہمیت ہے نیز قیاس اور اجتہاد میں کیا فرق ہے؟ اور اس کا حکم کہاں سے ثابت ہے ؟
المستفتی :۔محمد یزدانی گونڈوی

وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب

  اجتہاد کے لغوی معنیٰ ہیں کسی کام کی انجام دہی میں تکلیف و مشقت اٹھاتے ہوئے اپنی پوری کوشش کرنا۔ (القاموس الفقہی صفحہ ۷۱)

   اور علامہ عبدالحکیم لکھنوی نورالانوار کے حاشیہ الاقمار کے صفحہ ۲۴۶ پر اجتہاد شرعی کی تعریف یوں فرماتے ہیں’’وھو بذل  الفقیہ طاقتہ   فی استخراج  الحکم  الشرعی  النظری  بحدیث  یحس عن نفسہ  العجز عن  المزید  علیہ‘‘یعنی وہ فقیہ کا اپنی فکری  طاقت کو حکم شرعی نظری کے استنباط  میں اس طرح خرچ کرنا ہے کہ اس سے زیادہ فکری طاقت کے استعمال سے وہ اپنے آپ کو عاجز محسوس کرے ۔
  اگر کوئی  ایسا مسئلہ سامنے آئے کہ کسی سابقہ مجتہد نے اس بارے میں اجتہاد نہ کیا ہو اور وقت بھی ایسا ہو کہ اس کے علاوہ کوئی مجتہد نہ ہو تو ایسی صورت میں اس مجتہد پر اس مسئلہ میں اجتہاد کرنا فرض عین ہوجاتا ہے چاہے وہ مسئلہ پیش آچکا ہو یا مستقبل میں پیش آنے کی امید ہو لیکن  فی الحال پیش نہ آیا  ہو اور اگر اصحاب اجتہاد متعدد ہوں تو اجتہاد اس وقت فرض عین  ہوتا ہے جب وہ مسئلہ پیش آجائے یا کوئی سائل اس کے بارے میں سوال کر لے ،اگر وہ مسئلہ پیش نہ آیاہو توا جتہاد فرض کفایہ ہے ۔ (قمرا لاقمار : صفحہ  ۲۴۶ ملحضا )
  جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن کا گورنر بناکر بھیج رہے تھے تو آپ نے پوچھا: جب کوئی مقدمہ تمہارے سامنے پیش ہوگا تو کیسے فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا: کتاب اللہ کے احکام کے مطابق۔ پھر سوال کیا: اگر کتاب اللہ میں صراحت کے ساتھ اس کا حکم ذکر نہ ملا تو پھر کیسے فیصلہ کرو گے؟ انہوں نے جواب دیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق فیصلہ کرو ں گا۔ پھر سوال کیا کہ اگر سنت میں بھی صراحت کے ساتھ اس کا تذکرہ نہ ملا تو پھر کیسے فیصلہ کروگے؟ انہوں نے جواب دیا’’اَجْتَہِدُ رَأْیِیْ. قَالَ: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہِ‘‘ایسی حالت میں اپنی رائے سے اجتہاد کرکے فیصلہ کروں گا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے اپنے پیغمبر کے پیغامبر کو اس بات کی توفیق دی جو اس کے رسول کو پسند ہے۔
(الترمذی، جلد۳: صفحہ ۶۱۶)
  آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے فرمایا’’اِقْضِ بِالْکتابِ والسُنَّةِ، إذا وجدتَهما، فَإِذَا لم تجد الحکم فيهما، اجتهد رأيکَ‘‘جب تم قرآن و سنت میں کوئی حکم پاؤ تو اس کے مطابق فیصلہ کرو، لیکن اگر تم ان میں حکم نہ پا سکو تو اپنی رائے سے اجتہاد کرو۔(آمدي، الاحکام، جلد۴ : صفحہ۴۳)

اور قیاس کا لغوی معنی ہے اندازہ کرنا، کسی شے کو اِس کی مثل کی طرف لوٹانا۔ جب کسی ایک شے کے اچھے اور برے دونوں پہلو سامنے رکھ کر ان کا موازنہ کتاب و سنت میں موجود کسی امرِ شرعی کے ساتھ کرکے کسی نتیجہ پر پہنچانے کا عمل قیاس کہلاتا ہے۔ فقہاء نے قیاس کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے’’الْحَاقُ أمْرٍ غَیْرِ مَنْصُوْصٍ عَلٰی حُکْمِه الشَّرْعِیِّ بِأمْرٍ مَنْصُوْصٍ عَلٰی حُکْمِه لِاِشْتِرَاکِهِمَا فِیْ عِلَّةِ الْحُکْمِ‘‘حکم کی علت میں اشتراک کے سبب اُس معاملہ کو جس کے شرعی حکم کے بارے میں نص وارد نہیں ہوئی، ایسے معاملہ کے ساتھ ملانا جس کے حکم کی بابت نص وارد ہوئی ہے (قیاس کہلاتا ہے)۔ (ابن قدامه، روضة الناظر و جنة المناظر، جلد ۲: صفحہ ۲۲۷)
  گویا کسی علت یا سبب کو بنیاد بنا کر کسی سابقہ حکم کی روشنی میں نئے مسائل کا حل نکالنا قیاس ہے۔ قرآنِ مجید میں قیاس اور فکر و شعور کی بنیاد پر سوچنے سمجھنے کی دعوت دی گئی ہے، یہی قیاس کو فقہی مآخذ بنانے کی بنیاد ہے۔
   ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِمْ فَاسْأَلُواْ أَهْلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ. بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ‘‘اور ہم نے تم سے پہلے مرد ہی بھیجے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے اے لوگوں اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھو ہم نے روشن دلیلوں اور کتابوں کے ساتھ (رسولوں کو بھیجا) اور اے حبیب ہم نے تمہاری طرف یہ قرآن نازل فرمایا تاکہ تم لوگوں سے وہ بیان کردو جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اور تاکہ وہ غورو فکر کریں ۔
  مذکورہ بالاحوالوں سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے مسائل و معاملات میں قیاس و اجتہاد کو پسندیدگی نگاہ سے دیکھا اور آپ کی اسی پسندیدگی نے اسے بنیاد فراہم کی اجتہاد و قیاس فقہ اسلامی کا ناگزیر حصہ شمار ہوتا ہے اور ائمہ و فقہاء نے نئے پیش آنے والے مسائل کا حل اور ضروریات کو قیاس و اجتہاد کے ذریعے پورا کیا۔واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
غلام محمد صدیقی فیضی

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only