(تقلید کی شرعی حیثیت کیا ہے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔ کیا فر ما تے ہیں علمائے کرام کہ تقلید کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اور ائمہ اربعہ میں سے کس کی تقلید واجب ہے؟
المستفتی :۔ محمد شمیم قادری دولت پور
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
تقلید کی شرعی حیثیت کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :أنَّ الاُمَّةَ قَدْ اجْتَمَعَتْ عَلَی اَنْ يَعْتَمِدُوْا عَلَی السَلَفِ فِيْ مَعْرِفَةِ الشَرِيْعَةِ، فَالتَّابِعُوْنَ اعْتَمَدُوْا فِيْ ذَلِکَ عَلَی الصَحَابَةِ، وَ تَبْعُ التَابِعِيْنَ اعْتَمَدُوْا عَلَی التَّابِعِيْنَ، وَ هَکَذَا فِيْ کُلِّ طَبَقَةٍ إعْتَمَدَ العُلَمَاءُ عَلَی مِنْ قَبْلِهِم‘‘امت نے اجماع کر لیا ہے کہ شریعت کی معرفت میں سلف صالحین پر اعتماد کیا جائے۔ تابعین نے اس معاملہ میں صحابہ کرام پر اعتماد کیا اور تبع تابعین نے تابعین پر اعتماد کیا۔ اسی طرح ہر طبقہ میں علماء نے اپنے پہلے آنے والوں پر اعتماد کیا۔ (شاہ ولی اﷲ، عقد الجيد، جلد ۱، صفحہ۳۱)
اور غیر مجتہد پر چاروں اماموں(مقلدین اربعہ) میں سے کسی ایک مقلد کی تقلید واجب ہے جس پر آیت کریمہ بھی وارد ہے "فَاسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْن"( سورۃ النحل پارہ ۱۴، آیت ۴۳)
اور دوسری آیت کریمہ "اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُوْلِی الاَمْرِ مِنْکُم"(سورۃ النساء پارہ ۵، آیت ۵۹)
مجتہدین کثیر گزرے ہیں مگر کسی کا مذہب تمام مسائل فقہیہ کو جامع نہیں صرف چار ائمہ مذہب کا مذہب بتمامہا محفوظ اور تمام احکام کا جامع ہے اس لئے امت کا اس پر اجماع ہے آج نہیں چوتھی صدی میں کہ صرف انہیں چاروں کی تقلید جائز ہے جس پر امت کا سلفا خلفا عمل در آمد شاہد ہے جس کی تصریح علامہ سید احمد طحطاوی نے حاشیہ در مختار میں فرمائی ہے۔
ان چاروں (اماموں) میں سے تمام مسائل میں صرف ایک کی تقلید اس لئے واجب ہے کہ تقلید کی تعریف ہے کسی کی بات بلا دلیل ماننا اب اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک کی تقلید نہیں کرتا بلکہ کچھ مسائل میں امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا تقلید کرتا ہے اور کچھ مسائل میں حضرت امام مالک کی اور کچھ مسائل میں حضرت امام شافعی کی اور کچھ مسائل میں حضرت امام احمد بن حنبل کی رضی اللہ عنہم۔ اب اس سے پوچھئے کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے اور اگر وہ کہے کہ دلیل سے جس کا جو مذہب قوی معلوم ہوتا ہے اس کو میں اختیار کرتا ہوں تو اولا تقلید نہ رہی اور ثانیا یہ بے علم اس کا اہل کہاں کہ دلیل کے ضعیف و قوی ہونے کو پہچانے اس لئے اس کا یہ کہنا باطل لامحالہ اسے بھی اور ہر ذی انصاف کو ماننا پڑے گا کہ یہ اپنی پسند پر عمل کرتا ہے جس کا جو مسئلہ پسند آیا اس کو اختیار کرلیا یہ اللہ و رسول کی اطاعت نہ ہوئی اس لئے اس زمانے میں ان چاروں ائمہ مذکورین میں سے کسی ایک کی ہر ایک مسئلہ میں تقلید واجب ہوئی اور کسی کی کچھ بات ماننا یہ اپنی نفسانی خواہشات کا اتباع ہے۔ (فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم صفحہ ۲۲۶)
لہٰذا معلوم ہوا کہ ائمہ اربعہ ( امام اعظم ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، اور امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہم) میں کسی ایک ہی کی تقلید واجب ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
کتبہ
غلام محمد صدیقی فیضی
ایک تبصرہ شائع کریں