(توریہ کیا ہے؟ اور کب کیا جاتا ہے؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکا تہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ توریہ سے کیا مراد ھے؟ توریہ کب کیا جاتا ھے؟ یہ کب جائز ھے اور کب ناجائز ہے؟ کیا قرآن و حدیث سے بھی اسکا ثبوت ملتا ھے؟جواب تسلی بخش عنائیت فرما کر عند اللہ ماجور ہوں
المستفتی :۔غلام نبی پپرا لال گونڈہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
توریہ اس بات کو کہتے ہیں کہ جو ظاہر معنیٰ ہے وہ غلط ہے مگر کہنے والا دوسرے معنیٰ مراد لیتا ہے بلا حاجت توریہ کرنا جائز نہیں حاجت ہو تو جائز ہےحضرت صدر الشریعہ علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہتوریہ یعنی لفظ کے جو ظاہر معنی ہیں وہ غلط ہیں مگر اس نے دوسرے معنی مراد لئے ہیں جو صحیح ہیںایسا کرنا بلا حاجت جائز نہیں اور حاجت ہو تو جائز ہے توریہ کی مثال یہ ہے کہ تم نے کسی کو کھانے کے لئے بلایا وہ کہتا ہے میں نے کھانا کھا لیا اس کے ظاہر معنی یہ ہیں کہ اس وقت کا کھانا کھا لیا ہے مگر وہ یہ مراد لیتا ہے کہ کل کھایا ہے یہ بھی جھوٹ میں داخل ہےاحیائے حق کے لئے توریہ جائز ہے مثلاً شفیع کو رات میں جائداد مشفوعہ کی بیع کا علم ہوا اور اس وقت لوگوں کو گواہ نہ بتا سکتا ہو تو صبح کو گواہوں کے سامنے یہ کہ سکتا ہے کہ مجھے بیع کا اس وقت علم ہوا دوسری مثال یہ ہے کہ لڑکی کو رات کو حیض آیا اور اس نے خیار بلوغ کے طور پر اپنے نفس کو اختیار کیا مگر گواہ کوئی نہیں ہے تو صبح کو لوگوں کے سامنے یہ کہ سکتی ہے کہ میں نے اس وقت خون دیکھا(حوالہ ردالمختار بحوالہ اسلامی اخلاق وآداب صفحہ 170مطبوعہ المجمع الاسلامی مبارک پور یوپی)
قرآن پاک میں توریہ کی مثال موجود ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بتوں کو تباہ و برباد فرما دیا تو جب پچاریوں کو ان اصنام کی بربادی کا علم ہوا تو انہوں نے آپ سے پوچھا کس نے یہ کام کیا تو آپ نے فرمایا بل فعلہ کبیرھم یعنی اس بڑے نے کیا ہے دوسری مرتبہ جب پجاری لوگ اپنے میلے میں لے جانا چاہتے تھے تو آپ نے فرمایاانی سقیم یعنی میں بیمار ہونے والا ہوں واضح رہے کہ یہاں پر جو ظاہر معنیٰ ہے وہ مراد نہیں ہے اور ایک مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توریہ فرمایا کہ جب حضرت سارہ کو دیکھ کر ظالم بادشاہ بد نیت ہوا آپ سے پوچھا یہ تمہاری کون ہے آپ نے فرمایا ھذہ اختی یعنی یہ میری بہن ہےیہاں بہن سے حقیقی بہن نہیںبلکہ دینی بہن مراد ہیں ۔واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ
ابو الاحسان قادری رضوی غفرلہ
ایک تبصرہ شائع کریں