(کیا غیر حافظ کو حافظ کہہ کر دستار دے سکتے ہیں؟)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسئلہ:۔کیا فرماتے ہیں علمائےکرام اس مسئلہ میں کہ زید ایک بہت بڑا عالم ہے اور مسجد کا خطیب وامام بھی ہے اور دارالعلوم کا ناظم بھی ہے زید نے دارالعلوم کا سالانہ دستار حفاظ کرایا اسمیں دو بچوں کی دستار حفظ دی گئی ایک مکمل حافظ دوسرا نا مکمل تھا لیکن قوم کے سامنے دونوں کے مکمل حافظ قرآن کا اعلان کیا گیا ہے اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ زید نے جو کچھ قوم کے ساتھ کیا ہے کیا یہ قرآن وحدیث کی روشنی میں صحیح ہے یا غلط اور زید پر کیا حکم شرع ہے ؟اور دستار بندی کے بعد جو نمازیں امام زید نے پڑھائی کیا مقتدیوں کو دہرانا پڑے گا؟ جواب قرآن وحدیث کی روشنی میں عطاء فرمائیں عین نوازش ہوگی ۔
المستفتی:۔مختار احمد صدیقی / غلام رسول شیواجی نگر گونڈی
وعلیکم السلام ور حمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوہاب
عرف عام میں جسے پورا قرآن یاد ہو اسی کو حافظ قرآن کہا جاتا ہے زید کا یہ کہنا اس حافظ کے لئے جو نا مکمل تھا کہ اسے پورا قرآن یاد ہے یہ جھوٹ اور قوم کو فریب دینا ہےطلبہ صحیح تعلیم تربیت کیلئے علماء کے پاس امانت ہوتے ہیں اور انکے لئے دیکھ ریکھ اور درست تعلیم وتربیت علماء کی ذمہ داری ہوتی ہے جو انھوں نے سیکھا اور حاصل کیا وہی قوم کے سامنے ظاہر کیا جائے لہذا صورت مسئولہ میں کسی غیر حافظ کو جس نے حفظ مکمل نہ کیا ہو اسے قوم کے سامنے حافظ ہونے کی سند دینا اور اس کی دستار بندی کرنا شدید خیانت ہے اور قوم کو دھوکہ دیناخیانت کرنا ہے قرآن وحدیث میں دھوکہ دہی اورخیانت کی سخت مذمت و ممانعت آئی ہوئی ہے ۔
چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟لَا تَخُونُوا۟ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ وَتَخُونُوۤا۟ أَمَـٰنَـٰتِكُمۡ وَأَنتُمۡ تَعۡلَمُونَ [الأنفال ۲۷]
دھوکہ دہی شدید جرم ہے۔عن أبي الحمراء هلال بن الحارث من غشَّنا فليس منّا(البخاري (٢٥٦ هـ)، العلل الكبير ١٩٦ • لا يصح لأبي الحمراء عن النبي صلى الله عليه وسلم حديث • أخرجه الترمذي في «العلل الكبير» (٣٤٨) واللفظ له، وابن ماجه (٢٢٢٥)، والطبراني (٢٢/١٩٩) (٥٢٤) مطولاً • شرح رواية أخرى
جس نے دھوکہ دیاوہ ہم میں سے نہیں۔اور حضرت صدیق اکبر و انس ابن مالک رضی اللہ تعالی عنہما سےخیانت کرنے والے پر وعید شدید کی روایت منقول ہے ملاحظہ ہو:عن أبي بكر الصديق لا يدخلُ الجنةَ سيءُالمَلَكَةِ، ملعونٌ من خانَ مسلمًا أو غَرَّهُ (البزار (٢٩٢ هـ)، البحر الزخار،۱/۱۹۷)
اور حضرت انس ابن مالک سے مروی ہے:عن أنس بن مالك تقبَّلوالي ستًّا أتقبَّلْ لكم بالجنةِ قيل: وما هنَّ يا رسولَ اللهِ؟ قال إذا حدَّثتم فلا تكذِبوا وإذا وعَدتُم فلاتخلِفوا وإذا اؤتُمِنتُم فلا تخونوا وغُضواأبصارَكم واحفَظوا فروجَكم وكُفوا أيديَكم
البوصيري (٨٤٠ هـ)، إتحاف الخيرة المهرة ٦/١٠٠ • [فيه] سعد بن سنان ضعيف • أخرجه أبو يعلى (٤٢٥٧)، والحاكم (٨٠٦٧)، والبيهقي في «شعب الإيمان» (٤٣٥٥)
امام مذکور کا اگر یہ عمل اتفاقی ہے تو اسکی خود کی نماز و امامت پر فرق نہیں آئے گا اور اگر امام دیدہ ودانستہ (جان بوجھ کر)ایساہی کرتا ہے تو وہ لائق امامت نہیں خائن وفریبی ہے اس پر توبہ واستغفار لازم ہے اسے چاہئے کہ وہ اس فعل سے باز آئے نیز اعتراف خطا کے ساتھ ما سبق عمل کی تردید کرے(پچھلے کئے ہوئے عمل کو غلط کہے) اور دئے گئے اسناد کو واپس لےجس سے قوم کااعتماد بحال ہو سکے امام مذکور اگر اعتراف خطا کے ساتھ توبہ و استغفار کر لے تو ٹھیک ہے ورنہ سارے مسلمان مل کر اس کا بائیکاٹ کریں اور اس کی اقتداء میں نماز ادا نہ کریں۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَإِمَّا یُنسِیَنَّكَ ٱلشَّیۡطَـٰنُ فَلَا تَقۡعُدۡ بَعۡدَ ٱلذِّكۡرَىٰ مَعَ ٱلۡقَوۡمِ ٱلظَّـٰلِمِینَ [الأنعام ۶۸] اوراگرشیطان تمہیں بھلادے تویادآنے کےبعد نہ بیٹھو۔ واللہ تعــــالی اعــــلم بالصواب
کتبہ
منظوراحمد یارعـــلوی
ایک تبصرہ شائع کریں