(اعلیٰ حضرت کے ہاتھ پر کافر کے ایمان لانے کا واقعہ)
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فتاوی رضویہ میں ایسی تحریر ہے کہ ایک ہندو نے اعلیٰ حضرت رضی الله عنہ سے تین سوال کئے کہ اگر میرے سوالوں کے جواب پرسکون ملے تو میں اپناباطل دین چھوڑ دوں گا اللہ پورے قرآن اکٹھا نازل کرنے پر قادر ہے تو تھوڑا تھوڑا کیوں نازل کیا؟نمازپانچ وقت بندھے ہی وقت پر کیوں؟اگر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اللہ کے محبوب تھے تو معراج میں بلاکر واپس کیوں بھیجا؟ المستفتی: اکرم رضا لکھیم پوری
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
یہ واقعہ فتاویٰ رضویہ شریف میں نظر سے نہ گزرا البتہ”حیات اعلیٰ حضرت“ میں ایک واقعہ ہے ۔جس کی سرخی یوں ہے:ایک آریہ سماج کامسلمان ہونا۔
جناب سید ایوب علی صاحب کا بیان ہے کہ قبل ظہر حضرت استاذ العلماء مولانا مولوی حکیم نعیم الدین صاحب مراد آبادی و حضرت مولانا مولوی رحم الٰہی صاحب مدرس مدرسہ منظراسلام بریلی شریف خدمت اقدس میں حاضر ہیں کہ ایک آریہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ: میرے چند سوالات ہیں- اگر ان کے جوابات دے دیے گئے تو میں اور میرے بیوی بچے سب مسلمان ہوجائیں گے-
چوں کہ اذان ہو چکی تھی نہ معلوم کتنا وقت صرف ہوگا- بایں خیال حضور نے فرمایا: ہماری نماز کا وقت ہے ٹھہر جائے! اس کے بعد جو سوال کرو گے ان شاء اللہ تعالٰی جواب دیا جائےگا۔وہ کہنے لگا :ایک سوال تو یہی ہے کہ آپ کے یہاں عبادت کے پانچ وقت کیوں مقرر ہیں؟پرمیشور کی عبادت جتنی بھی کی جائےاچھا ہے۔مولانا نعیم الدین صاحب نے فرمایا: کہ یہ اعتراض تو خود تمہارے اوپر آتا ہے-مولانا رحم الٰھی صاحب نے فرمایا: میرے پاس”سیتارتھ پرکاش“ مکان پر موجود ہے ابھی منگوا کر دکھا سکتا ہوں-الغرض! طے پایا کہ جب تک کتاب آئی نماز پڑھ لی جائے۔ وہ اتنی دیر پھاٹک پہ بیٹھا رہا۔
بعدہ مندرجہ ذیل سوالات پیش کیے!١ قرآن تھوڑا تھوڑا کیوں نازل ہوا ایک دم کیوں نہ آیا؟ جبکہ وہ خدا کا کلام ہےخدا تو قادر تھا کہ ایک دم اتار دیتا-
٢:-آپ کے نبی کو معراج کی رات خدا نے بلایا تو پھر انہیں دنیا میں واپس کیوں کیا؟ وہ تو اسے محبوب تھے-
عبات پانچ وقت کے متعلق ”سیتھارتھ پرکاش“کی عبارت دیکھنا مشروط ہوئی-
مذکورہ بالا سوالات سن کر حضور نے فرمایا: میں تمہارے سوالوں کے جوابات ابھی دیتا ہوں ,مگر تم نے جو وعدہ کیا ہے،اس پر قائم رہو-اس نے کہا ہاں! میں پھر کہتا ہوں کہ اگر میرے سوالات کے جوابات آپ نے معقول دے دئے تو میں مسلمان ہوجاؤں گا- اور بیوی بچوں کو بھی لاکر مسلمان کرادوں گا-جب خوب قول قرار اور پختہ وعدہ کرلیا ۔تو حضور نے فرمایا:-پہلے سوال کا تو جواب یہ ہے کہ جو شے عین ضرورت کے وقت دستیاب ہوتی ہے،اس کی وقعت دل میں زیادہ ہوتی ہے-اس لیے اللّہ تعالٰی نے اپنے کلام کو بتدریج نازل فرمایا۔پھر فرمایا: انسان بچے کی صورت میں آتا ہے،پھر جوان ہوتا ہے،پھر بوڑھا- اللّہ تو قادر تھا بوڑھا ہی کیوں نہ پیدا فرمایا؟
پھر فرمایا: انسان کھیتی کرتا ہے،پہلے پودا نکلتا ہے،پھر کچھ عرصہ کے بعد اس میں بالی آتی ہے ,اس کے بعد دانہ برآمد ہوتا ہے-وہ تو قادر تھا ایک دم غلہ کیوں نہ پیدا فرمایا؟
اس کے بعد”سیتارتھ پرکاش“آگئے-جس میں حسب ذیل عبارتیں موجودتھیں۔
باب تیسرا(تعلیم) پندرہواں ہیڈنگ ”اگنی ہو ترصبح وشام دوہی وقت کرے۔
باب چوتھا(خانہ داری )٦٣ ہیڈنگ ”سندھیا دوہی وقت کرنا چاہئے“
ان عبارات کو سن کر بجز قائل ہونے کے چارہ ہی کیا تھا- لہذا اعتراض کرتے ہوئے معراج شریف والے سوال کا جواب چاہا۔اس کی نسبت حضور نے ارشادفرمایا:اسے یوں سمجھو کہ ایک بادشاہ اپنے مملکت کے انتظام کے لیے ایک نائب مقرر کرتا ہے،وہ صوبہ (دار) یا نائب بادشاہ کے حسب منشا خدمات انجام دیتا ہے- بادشاہ اس کی کار گزاریوں سے خوش ہوکر اپنے پاس بلاتا ہے,اور انعام وخلعت فاخرہ عطا فرماتا ہے-نہ یہ کہ اسے بلاکر معطل کر دیتا ہےاور اپنے پاس روک لیتا ہے- یہ سن کر اس نے کہا کہ آپ نےمیری پوری تشفی فرمادی اور میری سمجھ میں خوب آگیا- میں ابھی جاکر بیوی اور بچوں کو لاتا ہوں اور خود بھی مسلمان ہوتا ہوں،ان کو بھی مسلمان کراتا ہوں ۔(ملخصا از حیات اعلیٰ حضرت ج/اول ص/٣٣١ تا ٣٣٤ ناشر ادارہ ترویج واشاعت مسجد نور الاسلام بولٹن، یو کے)
پورا واقعہ نقل کردیا ہے تاکہ قا رئین حضرات زیادہ فائدہ اٹھا سکیں ورنہ صرف حوالہ ہی کافی تھا-
مذکورہ واقعہ اعلیٰ حضرت سرکار کے اس حدیث پر عامل ہونے کی بین دلیل ہے جس میں فرمایا گیا کہ ”کلّم الناس بقدر عقولھم“ یعنی لوگوں سے ان کی عقلوں کے موافق کلام کرو ۔واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ
معظم علی قادری تحسینی
ایک تبصرہ شائع کریں