جمعہ، 6 دسمبر، 2024

(فاقرءو ماتیسر اور لا صلاۃ الابفاتحہ میں تطبیق)

(فاقرءو ماتیسر اور لا صلاۃ الابفاتحہ میں تطبیق)

 الاستفتاء:کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ قرآنِ کریم کی آیت ہے ’’فَاقْرَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُ‘‘ آیت سے ظاہر ہے کہ حالتِ نماز میں قرآن جہاں سے چاہو پڑھو مگر حدیث میں ’’لَا صَلَاة إِلَّا بِفَاتِحَة الْكِتَابِ‘‘ ہے یعنی سورہ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوگی، تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟
المستفتی:محمد افضل نظامی، گورا چوکی
 
باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب

     تطبیق کی صورت یہ ہے کہ حدیث کو اس پر محمول کریں گے کہ سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر نماز کامل نہیں ہوتی، اور آیت کی وجہ سے مطلق قراءت فرض ہوگی، اس اعتبار سے نمازی نماز میں قرآنِ کریم کا جو بھی حصہ پڑھ لے گا اُس کا فرض ادا ہوجائے گا، اور حدیث کی وجہ سے سورۂ فاتحہ کی قراءت واجب ہوگی۔

   چنانچہ علامہ نظام الدین ابو علی احمد بن محمد شاشی متوفی ۳۴۴ھ لکھتے ہیں: وبمثله نقول في قوله تعالى {فاقرؤوا ما تيسر من القرآن} فإنه عام في جميع ما تيسر من القرآن ومن ضرورته عدم توقف الجواز على قراءة الفاتحة وجاء في الخبر أنه قال لا صلاة إلا بفاتحة الكتاب فعملنا بهما على وجه لا يتغير به حكم الكتاب بأن نحمل الخبر على نفي الكمال حتى يكون مطلق القراءة فرضا بحكم الكتاب وقراءة الفاتحة واجبة بحكم الخبر۔(أصول الشاشی، ص ۲۳)

یعنی، ہم اس کی مثل باری تعالیٰ کے فرمان ’’قرآن میں سے جتنا تم پر آسان ہو اتنا پڑھو‘‘ میں کہتا ہوں، کیونکہ کلمۂ ما قرآن کے اس تمام حصے کو عام ہے جو آسان ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ نماز کا ادا ہونا فاتحہ پڑھنے پر موقوف نہ ہو اور حدیث میں آیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورۂ فاتحہ پڑھے بغیر نماز نہیں ہوگی، پس ہم نے قرآن وحدیث دونوں پر اس طریقہ سے عمل کیا کہ اس سے قرآن کریم کا حکم تبدیل نہ ہو بایں طور پر کہ ہم حدیث کو کامل ہونے کی نفی پر محمول کریں گے حتی کہ قرآن کریم کے حکم سے مطلق قراءت فرض ہوگی اور حدیث کے حکم سے فاتحہ کی قراءت واجب ہوگی۔واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
کتبہ:
محمد اُسامہ قادری
پاکستان،کراچی
منگل،۳۰/جمادی الأولیٰ،۱۴۴۶ھ۔۳/دسمبر،۲۰۲۴م

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only