اتوار، 29 دسمبر، 2024

(مزارات اولیاء پر چادر چڑھاناکیساہے؟)

 (مزارات اولیاء پر چادر چڑھاناکیساہے؟)
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓدین و مفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ اولیاۓکرام کے مزارات پر چادریں چڑھانا کیسا؟دیوبندی کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں،شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے تفصیلی فتوی  عنایت فرمائیے مہربانی ہوگی! 
المستفتی: محمد بشیر نقشبندی رانی سر اتر گجرات

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوھاب

واضح رہے کہ اولیاۓکرام شعائراللہ سے ہیں اور ان کے عتبات عالیات بھی تعظیم شعائراللہ میں داخل ہیں،لھذا دریافت کردہ مسئلے میں شریعت مطہرہ کا حکم یہ ہے کہ اولیاۓکرام،علماۓعظام وغیرہم کے مزارات پر تعظیم و تکریم اور ادب احترام کے پیش نظر چادریں چڑھانا جائز اور مستحسن امر ہے! 

اس کی دلیل یہ ہے کہ بیت اللہ شریف اور قرآن شریف پر غلاف چڑھایا جاتا ہے تاکہ لوگ خانئہ کعبہ کو عام مسجدوں اور قرآن شریف کو عام کتابوں کی طرح نہ سمجھیں،ٹھیک اسی طرح اولیاۓکرام کے مزارات عالیات پر بھی غلاف (چادریں)چڑھائی جاتی ہیں تاکہ عوام کی نظروں میں اولیاۓکرام کی قدر و منزلت اور وقعت وعزت پیدا ہو اور ظاہر بیں عوام ان کی قبور متبرکہ کو عام قبروں کی طرح نہ سمجھیں!

تفصیلی دلائل ملاحظہ فرمائیں!
محقق علی الاطلاق حضرت علامہ امام عبدالحق محدث دہلوی قادری (٢ ربیع الاوّل ١٠٥٢ھ)علیہ الرحمہ مدارج النبوۃ میں لکھتے ہیں: "حاکم نے بروایت (حضرت) قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ تعالٰی عنہم نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی خدمت میں آیا اور عرض کیا۔۔"اے میری والدہ محترمہ! میرے لیے حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم کی قبر انور پر سے چادر شریف اٹھائیے"،انہوں نے اٹھائی۔الاخ۔(مدارج النبوت ج٢ ص ٥١٤)

مفسر قرآن حضرت علامہ امام ابوالفدا اسمٰعیل بن مصطفٰی حقی استانبولی سہروردی خلوتی علیہ الرحمہ (المتوفٰی١١٣١ھ) علیہ الرحمہ سورہ توبہ کی آیت نمبر ١٨ "اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ. ترجمہ کنز الایمان: "اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے ہیں" مذکورہ آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:"فبناء القباب علی قبور العلماء والاولیاء والصلحاء ووضع الستور والعمائم والثیاب علی قبورھم امر جائز اذا کان القصد بذلک التعظيم فی اعین العامۃ حتی لا یحتقروا صاحب ھذا القبر"یعنی:علما،صلحا،اور اولیا کی قبور مبارکہ پر گنبد بنانا،چادریں چڑھانا عمامے اور کپڑے رکھنا جائز امر ہے جبکہ اس کا ارادہ عامۃالناس کی نظروں میں تعظیم پیدا کرنا مقصود ہو تاکہ لوگ اس صاحب قبر کو حقیر نہ جانیں!(تفسیر روح البیان،السورۃ التوبۃ، الآیۃ:١٨ج٥ ص١١٥، مطبوعہ دار الفکر بیروت)

حضرت علامہ امام ابن عابدین شامی حنفی قادری نقشبندی  (المتوفٰی١٢٥٢ھ) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:” قال فی فتاوی الحجۃ وتکرہ الستور علی القبور ولکن نحن نقول الآن إذا قصد به التعظيم في عيون العامة حتى لا يحتقروا صاحب القبر، ولجلب الخشوع والأدب للغافلين الزائرين، فهو جائز لأن الأعمال بالنيات“یعنی:فتاوی حجہ میں ہے کہ قبروں پر چادر ڈالنا مکروہ ہے لیکن ہم کہتے ہیں کہ اب جب کہ عوام کی نظروں میں تعظیم مقصود ہو تاکہ عوام صاحب مزار کو حقیر نہ جانیں بلکہ غافلوں کو اس سے خشوع اور ادب حاصل ہو تو مزار پر غلاف ڈالنا (چادر چڑھانا) جائز ہے کیوں کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے(ردالمحتار علی الدر المختار، کتاب الحظر و الاباحۃ،ج٦ ص٤٦٣ مطبوعہ دار الفکر بیروت)

حضرت علامہ شامی علیہ الرحمہ العقود الدریہ فی تنقیح الفتاوی الحامدیہ میں مذکورہ بالا عبارت کی علت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”لان قلوبهم نافرة عندالحضور فی التادّب بين يدی اولیاء اللّہ تعالى المدفونین فی تلك القبور كما ذكرنا من حضور عند قبورهم فهو امر جائز لا ينبغی النّهی عنہ لان الاعمال بالنّيّات ولكل امرئ ما نوى“
یعنی: کیونکہ ان قبروں میں مدفون اولیاء اللہ کے حضور حاضر ہوتے وقت لوگوں کے دل ادب و احترام سے غافل ہوتے ہیں جیسا کہ ہم نے ان کی قبروں پر حاضری کے بارے میں ذکر کیا ہے،تو یہ ایک مباح امر ہے اس سے منع کرنا غیر مناسب ہے کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اور ہر اس شخص کے لیے وہی ہے جو اس نے نیت کی ہے"(العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية، ج٢ ص٣٢٤مطبوعہ دار المعرفۃ)

حضور حکیم الامت حضرت علامہ مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی اشرفی (المتوفٰی ١٣٩١ھ) علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: "علمائے اہل سنت کا فرمان ہے کہ پھول ڈالنا تو ہر مؤمن کی قبر پر جائز ہے خواہ ولی اللہ ہو یا گنہگار اور چادریں ڈالنا اولیاء٬علماء٬صلحاء کی قبور پر جائز عوام مسلمین کی قبور پر ناجائز کیونکہ یہ بے فائدہ ہے" (جآء الحق ح ١ ص ٢٩٤)

مذکورہ بالا عبارات کی روشنی میں معلوم و مفہوم ہوا کہ اولیاۓکرام کی تعظیم و تکریم کی نیت سے ان کے مزارات عالیات پر چادریں چڑھانا بلا شک و شبہ جائز و مستحسن امر ہے،دیوبندی جو شرک و بدعت،ناجائز و حرام کہتے ہیں۔وہ بے بنیاد و بے اصل ہے!

الانتباہ:- یہاں میں یہ بات واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ دیوبندی بدمذہب،بےدین،گمراہ اور گمراہ گر ظالم فرقہ ہے اور اللہ تبارک و تعالٰی نے ظالموں کے پاس بیٹھنے سے منع فرمایا، چنانچہ اللہ تبارک و تعالٰی نے قرآن مجید میں ارشاد  فرماتا ہے: "وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّكَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرٰى مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ"
ترجمئہ کنرالایمان:اور اگر شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنےکے بعد ظالموں کے پاس نہ بیٹھ!(سورۃالانعام آیۃ ٦٨)

حدیث مبارک میں ہے "اِیَّاکُمْ وَ اِیَّا ھُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ‘‘ان (بدمذہبوں) سے دور رہو اور انھیں اپنے سے دور کرو، کہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں!۔۔۔۔۔۔لھذا مذکورہ بالا قرآن و حدیث مبارک کے مطابق ثابت ہواکہ ایسے لوگوں سے دور رہنا لازم ہے۔نہ ان کی مجلسوں میں جائیں،نہ انہیں اپنی مجلسوں میں بلائیں، نہ کسی قسم کی انہیں دعوت دیں نہ ان کی دعوت قبول کریں،ان سے بالکل بھی میل جول نہ رکھیں،

البتہ ایسے گمراہ دیوبندی جن کو در حقیقت دیابنہ کے عقائد کفریہ فاسدہ باطلہ وغیرہ کا بالکل بھی علم نہیں یا کچھ علم تو ہے لیکن اعتقاد فاسدہ رکھے بغیر صرف ایسے ہی براۓ نام خود کو دیوبندی کہتے ہیں،اور رہنمائی نہ ملنے کے سبب وہ گمراہی کا شکار ہیں تو حسب موقع،محل ایسے لوگوں کے پاس جاکر ضرور ان کی اصلاح کرنی چاہیے تاکہ اللہ تعالٰی توفیق دے تو ہماری اصلاح و تبلیغ سے گمراہی و بدعقیدگی کے دلدل سے نکل کر راہ راست پر آسکیں! 

نوٹ : خیال رہے کہ اظہار عظمت کے لیے مزار پر صرف ایک چادر پیش کر دینا کافی ہے،لیکن دور حاضر میں جو یہ رسم چل پڑی ہے کہ مزارات پر چادروں پہ چادریں چڑھائی جاتی ہیں یہ درست نہیں،چادر کا پیسہ کسی مستحق کو دے دیں یا صاحب مزار کی فاتحہ لگاکر تبرک تقسیم کر دیں!واللہ تعالٰی و رسولہ الاعلٰی اعلم بالصواب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ وسلم 
کتبہ: سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی
شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الہند 
بتاریخ٢٤جمادی الآخر١٤٤٦ھ
بمطابق٢٧دسمبر٢٠٢٤ء 
بروز جمعہ

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only