جمعرات، 26 دسمبر، 2024

(جمعہ وعیدین میں سجدہ سہوکرسکتے ہیں؟)

 السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں "نماز جمعہ میں سہو واقع ہوجاۓ تو کیا سجدہءسہو کا حکم ہوگا"؟
المستفتی: سید محمد زین سہروردی داہود گجرات 
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب 
سب سے پہلے یہ واضح رہے کہ  سجدہءسہو کے حکم میں سب نمازیں برابر ہیں خواہ فرض ہو یا نفل جیساکہ فتاوی قاضیحان میں ہے "والسھو فی العید فی صلوٰۃالجمعۃوالمکتوبۃ و صلوٰۃالتطوع سواء"
یعنی:عید،جمعہ،فرض اور نفل نمازیں (سجدہءسہو) کے مسائل میں برابر ہیں! 
لیکن نماز جمعہ اور اسی طرح عیدین کے بارے میں فقہاۓکرام تصریح فرماتے ہیں کہ جب امام سے سہو واقع ہوجاۓ اورمجمع کثیر ہوتو بہتر ہےکہ سجدہءسہو نہ کرے تاکہ لوگ فتنہ میں مبتلا نہ ہوں! 
 
جیساکہ فتاوی قاضیخان میں حضرت علامہ امام فخرالدین حسن بن منصور الاوزجندی الفرغانی الحنفی (المتوفٰی ٥٩٢ھ) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"ومشائخنا قالو لا یسجد للسھو فی العیدین والجمعۃ کیلا یقع الناس الفتنۃ"
یعنی: اور ہمارے مشائخ نے فرمایا"عیدین اور جمعہ میں سجدہءسہو نہ کیا جاۓ تاکہ لوگ فتنہ میں نہ پڑیں"
(فتاوی قاضیخان مع فتاوی سراجیہ کتاب الصلوٰۃ ج١ص٩٠) 
حضرت علامہ امام شرنبلالی علیہ الرحمہ تحریر (لمتوفٰی ٩٩٤ھ) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"ولا یاتی الامام بسجود السھو فی الجمعۃ والعیدین دفعا للفتنۃ بکثرۃ الجماعۃ "
یعنی: امام جمعہ و عیدین میں کثرت جماعت کی وجہ سے فتنہ کو دفع کرتے ہوۓ سجدہءسہو نہ کرے
خیال رہے کہ مذکورہ حکم اس وقت ہے کہ جب کہ جمعہ یا عیدین میں لوگوں کی کثیر تعداد ہو اگر بھیڑ کم ہو تب تو سجدہ کا حکم ہوگا!
جیساکہ مذکورہ بالا عبارت کے تحت حضرت علامہ امام سید احمد بن اسمعیل الطحطاوی السہروردی (المتوفٰی ١٢٣١ھ) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ای افتنان الناس وکثرۃ الھرج،ان عدم السجود مقید بما اذا حضر جمع کثیر اما اذا لم یحضروا فاالظاھر السجود"
یعنی: لوگوں کے فتنہ میں مبتلا ہونے اور مجمع کی کثرت کی وجہ سے سجدۂ سہو کا نہ ہونا لوگوں کی کثیر تعداد کے ساتھ مقید ہے، لیکن اگر (نماز میں)تعداد زیادہ نہ ہو تو پھر حکم ظاہر یہ ہے کہ سجدۂ سہو کرے 
(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح شرح نور الایضاح کتاب الصلوۃ باب سجود السھو ص ٤٦٥، ٤٦٦)
 لیکن اگر امام سجدۂ سہو کرلے تو گنہگار نہ ہوگا کیوں کہ اصل مذہب کے مطابق سجدۂ سہو جائز ہے البتہ کثرت تعداد کی وجہ سے منع کیا گیا ہے! 
چنانچہ حضرت علامہ امام ابن عابدین شامی قادری نقشبندی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"و ليس المراد عدم جوازه بل الأولى تركه كي لا يقع الناس في فتنة"
یعنی: اور مراد یہ نہیں کہ یہ (سجدہءسہو) جائز نہیں ہے، بلکہ اس کو چھوڑ دینا ہی بہتر ہے تاکہ لوگ فتنے میں نہ پڑیں۔(رد المحتار ج ٢ ص ٥٦٠)
واللہ تعالٰی و رسولہ الاعلٰی اعلم بالصواب 
عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم 
کتبہ:سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی 
شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ 
داہود شریف الھند
بتاریخ١٨جمادی الآخر١٤٤٦ھ
بمطابق٢١دسمبر٢٠٢٤
بروز شنبہ (ہفتہ،سنیچر)

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only