منگل، 31 دسمبر، 2024

(کیا فلائٹ میں نماز ہو جائےگی؟)

(کیا فلائٹ میں نماز ہو جائےگی؟)

السلام علیکم ورحمة اللّٰه وبرکاته 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیانِ عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا فلائٹ میں نماز ہوجائے گی؟جواب عنایت فرمائیں عین کرم ہوگا
المستفتی: محمد کیف بھوجپورہ بریلی شریف

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
بسم اللّٰه الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب

فلائٹ میں نماز پڑھنے کی چند صورتیں ہیں(١) پہلی یہ کہ ہوائی جہاز زمین (ایئر پورٹ) پر کھڑا ہو۔(۲)؛ دوسری یہ کہ ہوائی جہاز فضا میں اڑ رہا ہو۔ان دونوں صورتوں میں فلائٹ میں نماز ہوجائے گی اور اس نماز کے اعادہ کی بھی ضرورت نہیں ہے، اس لیے کہ پہلی صورت میں ہوائی جہاز کو زمین پر استقرار حاصل ہے، اور دوسری صورت میں اس کا حکم بیچ دریا میں چلتی ہوئی کشتی کا ہے اور اس میں نماز صیح ہوجاتی ہے۔

        حضرت علامہ شیخ زین الدین بن ابراھیم بن محمد المعروف بابن نجیم المصری الحنفی المتوفی ٩٧٠ھ علیہ الرحمہ نے تحریر فرمایا ہے:”وفي الايضاح : فإن كانت موقوفة في الشط وهي على قرار الأرض فصلى قائماً جاز لأنها إذا استقرت على الأرض فحكمها حكم الأرض، فإن كانت مربوطة ويمكنه الخروج لم تجز الصلاة فيها لأنها إذا لم تستقر فهي كالدابة بخلاف ما إذا استقرت فإنها حينئذ كالسرير اھ....ترجمہ: اور ایضاح میں ہے کہ: کشتی اگر کنارے پر ٹھہری ہو تو وہ زمین پر مستقر ہونے کے مانند ہے پھر اس میں کھڑے ہوکر نماز پڑھی تو جائز ہے اس لیے کہ اس کا حکم زمین کا حکم ہے، پس اگر باندھی ہوئی ہو اور اس سے نکلنا ممکن ہو تو اس میں نماز جائز نہیں ہے اس لیے کہ جب وہ مستقر نہیں ہے تو جانور کی طرح ہے، بخلاف اس کے کہ جب مستقر ہو کہ اس وقت تخت کی طرح ہے۔(البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المریض، جلد ۲، صفحہ ٢٠٦، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

(۳) تیسری صورت یہ ہے کہ فلائٹ رن وے پر چل رہا ہو۔اس صورت میں اس پر فرض، واجب، اور سنت فجر ادا کرنا صحیح نہیں ہے اس لیے کہ اس کو زمین پر استقرار حاصل نہیں ہوتا، اور اس کو روکنا پائلٹ کے ہاتھ میں ہوتا ہے اگر رو کے تو زمین پر رک سکتا ہے، لہذا یہ عذر من جہت العباد ہوا اور ایسے عذر کی وجہ سے مذکورہ نمازیں صحیح نہیں ہوسکتیں ہاں اگر وقت جاتا دیکھے تو نماز پڑھ لے اور عذر زائل ہونے کے بعد اس نماز کا اعادہ اعادہ کرلے۔

”فتاویٰ فقیہ ملت“میں ہے: اگر ہوئی جہاز اڈا پر کھڑا ہو تو اس میں ہر نماز پڑھ سکتا ہے اور اگر اڑ رہا ہو اور مسافر کو غالب گمان ہو کہ اڈے پر اترنے تک اتنا وقت نہ بچے گا کہ جس میں نماز پڑھ سکے گا تو ہوائی جہاز اڑنے ہی کی حالت میں نماز پڑھے جیسے کہ کشتی اور پانی کے جہاز میں ۔ اسے ٹرین پر قیاس نہیں کیا جاسکتا کہ اس کا ڈرائیور اسٹیشن کے علاوہ بھی اسے روک سکتا ہے۔ اس لیے چلتی ہوئی ٹرین میں نماز پڑھی گئی تو نماز کا اعادہ ضروری ہے، اور ہوائی جہاز کا ڈرائیور اسے ہر جگہ اتار نہیں سکتا تو یہ مانع من جبہت العباد نہیں اس لئے اس میں پڑھی گئی نماز کا اعادہ نہیں ہے۔ 

‌      ”فتاوی شامی ، ج ۱، ص ۵۶۲ کے حوالہ سے ہے ؛ قوله لا يعيد أى في سقوط الشرائط أو الأركان بعذر سماوي بخلاف ما كان من قبل العبد اھ......

اور ہوائی جہاز میں جو مانع پایا جاتا ہے وہ سبب سماوی کے حکم میں ہے کہ ڈرائیور کو ہر جگہ روکنے کا اختیار نہیں ، ہاں اگر کوئی ایسا ہوائی جہاز ہو کہ جس کا ڈرائیور اسے کہیں بھی اتار سکتا ہو تو اس پر پڑھی گئی نماز کا اعادہ ضروری ہے۔ (فتاویٰ فقیہ ملت، جلد ۱، صفحہ ٢٢٧، مطبوعہ شبیر برادرز لاہور)واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب 

کتبہ
عبد الوکیل صدیقی نقشبندی پھلودی راجستھان الھند 
خادم الجامعۃ الصدیقیہ سوجا شریف باڑمیر راجستھان الھند 
٢٦ جمادی الاخر ١٤٤٦ھ۔ ٢٨ دسمبر ٢٠٢٤ء۔ بروز ہفتہ

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only