(فجر میں اجتماعی دعا کرنا کیساہے؟)
السلام علیکم رحمت اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓکرام و مفتیان عظام اس مسئلے میں کہ فجر کی نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا کیسا ہے اگر مقتدی کو گراں گزرے تو پانچوں نمازوں میں دعا کرنا درست ہے یا نہیں؟ جواب سے نوازیں
المستفتی: محمد یعقوب علی رضوی لمڑی گجرات
کیا فرماتے ہیں علماۓکرام و مفتیان عظام اس مسئلے میں کہ فجر کی نماز کے بعد اجتماعی دعا کرنا کیسا ہے اگر مقتدی کو گراں گزرے تو پانچوں نمازوں میں دعا کرنا درست ہے یا نہیں؟ جواب سے نوازیں
المستفتی: محمد یعقوب علی رضوی لمڑی گجرات
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب
دریافت کردہ صورت میں فجر کی نماز اور اسی طرح دیگر نمازوں کے بعد اجتماعی یا انفرادی دعا کرنا درست ہے اور یہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم،صحابہ کرام اور سلف صالحین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے ثابت ہے،اور سنن مستحبہ سے ہے۔البتہ اجتماعی دعا میں اس بات کا خیال رہے کہ امام صاحب نماز کے بعد اس قدر طویل دعا نہ کریں کہ مقتدیوں پر گراں گزے۔
اور یہ مسئلہ بھی واضح رہے کہ وہ فرض نمازیں اور نماز جمعہ کہ جن کے بعد سنن مؤکدہ اور نوافل ہیں تو ان میں فرض نماز کے بعد طویل دعا اوراد و وظائف کرنا۔ نیز ایسے ہی فرض و سنت کے درمیان کلام کرنا مکروہ تنزیہی اور خلاف اولٰی ہے اس سے فرض و سنت کے درمیان فصل طویل لازم آنے کے سبب ثواب میں کمی ہو جاتی ہے اس لیے ایسی نمازوں اور فرض جمعہ کے بعد اختصار کے طور پر دعا کرنا چاہیے،کیوں کہ حضور نبیِ اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم فرض نماز کے بعد مختصر دعا فرماتے تھے۔
اور جن احادیث مبارکہ میں نماز کے بعد طویل ذکر و اذکار کرنے کا بیان ہے تو ان سے مراد سنتوں اور نوافل کے بعد دعا کرنا ہے نہ کہ فرض کے بعد سنت سے پہلے۔
اجتماعی دعا کے بارے میں حدیث مبارک میں ہے:”عن حبيب بن مسلمة الفهري سمعت رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم يقول: لا يجتمع ملأ فيدعو بعضهم ويؤمن سائرهم إلا أجابهم اللہ“ترجمہ: حضرت حبیب بن مسلمہ الفہری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب لوگوں جمع ہو اور ان میں سے کوئی ایک دعا کرے اور باقی اس دعا پر آمین کہیں تو اللہ تعالٰی ان کی دعا قبول فرماتا ہے۔ (المعجم الکبیر ، حبیب بن مسلمہ ، ج ٤،ص ٢١،مطبوعہ القاھرہ)
ظہر مغرب اور عشا کی فرض نمازوں میں مختصر دعاؤں پر اکتفا کریں اور طویل دعائیں سنتوں کے بعد کریں۔چنانچہ حضرت علامہ امام ابن عابدین شامی قادری نقشبندی علیہ الرحمہ ردالمحتار میں فرماتے ہیں:(قوله إلا بقدر اللهم إلخ) لما رواه مسلم والترمذي عن عائشة قالت كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا يقعد إلا بمقدار ما يقول: اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام"(اور ان کا یہ قول کہ اللهم الاخ کہنے کی مقدار دعا کریں)جیساکہ امام مسلم اور امام ترمذی علیہما الرحمہ نے ام المؤمنین حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم (فرض نماز کے بعد) صرف "اللهم أنت السلام ومنك السلام تباركت يا ذا الجلال والإكرام" کہنے کی مقدار تک بیٹھتے تھے
(ردالمحتار ج ١ ص٥٣٠)
مزید فرماتے ہیں"واما ما ورد من الاحاديث فی الاذكار عقيب الصلاة فلا دلالۃ فيه على الاتيان بها قبل السنة بل يحمل علی الاتیان بها بعْدها"
ترجمہ: اور جہاں تک احادیث میں نماز کے بعد ہونے والے(طویل) اذکار کا بیان ہے تو یہ فرض کے بعد سنت سے پہلے (کی جانے والی دعاؤں) پر دلالت نہیں کرتا بلکہ نماز سنت کے بعد (کی جانے والی دعاؤں اور اذکار) پر محمول کیا جاۓگا،(ردالمحتار ج ١ ص٥٣٠)
نماز فجر و عصر کے بعد اجتماعی و انفرادی دعا کے بارے میں صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"فجر و عصر کے بعد اختیار ہے جس قدر اذکار و اوراد و ادعیہ پڑھنا چاہے پڑھے مگر مقتدی اگر امام کے ساتھ مشغول بہ دعا ہوں اور ختم کے منتظر ہوں تو امام اس قدر دعا طویل نہ کرے کہ گھبرا جائیں" مزید فرماتے ہیں:"ظہر و مغرب و عشاء کے بعد مختصر دعاؤں پر اکتفا کرکے سنت پڑھے زیادہ طویل دعاؤں میں مشغول نہ ہو"( بہار شریعت ج١ ح ٣ ص٤٨,٤٩ )واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ الاعلی اعلم بالصواب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم
کتبہ
مزید فرماتے ہیں"واما ما ورد من الاحاديث فی الاذكار عقيب الصلاة فلا دلالۃ فيه على الاتيان بها قبل السنة بل يحمل علی الاتیان بها بعْدها"
ترجمہ: اور جہاں تک احادیث میں نماز کے بعد ہونے والے(طویل) اذکار کا بیان ہے تو یہ فرض کے بعد سنت سے پہلے (کی جانے والی دعاؤں) پر دلالت نہیں کرتا بلکہ نماز سنت کے بعد (کی جانے والی دعاؤں اور اذکار) پر محمول کیا جاۓگا،(ردالمحتار ج ١ ص٥٣٠)
نماز فجر و عصر کے بعد اجتماعی و انفرادی دعا کے بارے میں صدرالشریعہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"فجر و عصر کے بعد اختیار ہے جس قدر اذکار و اوراد و ادعیہ پڑھنا چاہے پڑھے مگر مقتدی اگر امام کے ساتھ مشغول بہ دعا ہوں اور ختم کے منتظر ہوں تو امام اس قدر دعا طویل نہ کرے کہ گھبرا جائیں" مزید فرماتے ہیں:"ظہر و مغرب و عشاء کے بعد مختصر دعاؤں پر اکتفا کرکے سنت پڑھے زیادہ طویل دعاؤں میں مشغول نہ ہو"( بہار شریعت ج١ ح ٣ ص٤٨,٤٩ )واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ الاعلی اعلم بالصواب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم
کتبہ
سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی
شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند
بتاریخ ٢جمادی الآخر١٤٤٦ھ
بمطابق٥دسمبر٢٠٢٤ء
بروز پنج شنبہ (جمعرات)
شاہی دارالقضا و آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الھند
بتاریخ ٢جمادی الآخر١٤٤٦ھ
بمطابق٥دسمبر٢٠٢٤ء
بروز پنج شنبہ (جمعرات)
ایک تبصرہ شائع کریں