جمعہ، 6 دسمبر، 2024

(کیا فاجر کا عیب بتانا غیبت ہے؟)

(کیا فاجر کا عیب بتانا غیبت ہے؟)

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
 کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں اگر کوئ شخص دو لوگوں میں  غلط فہمی ڈال رہا ہے اس وجہ سے دونوں میں برائ بڑھ رہی ہو تو برائ ڈالنے والے کی حقیقت ہم دوسرے کو بتا سکتے ہے ؟  یہ غیبت ہوگی کہ نہیں ؟  اور دو بھائی ہو اور ایک والد کو دوسرے کے خلاف بھڑکاۓ،تو کیا بھڑکانے والے کی عادتِ بد  کا والد کے سامنے ذکر کرنا غیبت ہوگی یا نہیں 
المستفتی سید حسان رضا مہاراشٹر

وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم 
الجواب بعون الملک الوھاب 

جھگڑا و فساد ختم کرنے کے لیے یا پچانے کے لیے ان دونوں کو اس جھگڑا لگانے والے شخص سے آگاہ کرنا چغل خوری اور غیبت نہیں ہے ۔

حدیث شریف میں ہے "عن بھز بن حکیم، عن ابیہ، عن جدہ، قال:قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم أ ترعوون عن ذکر الفاجر اذکروہ بما فیہ کیی یعرفہ الناس و یحذرہ الناس"
بہز بن حکیم نے اپنے باپ وہ اپنے دادا سے روایت کی وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم فاجر کے ذکر سے بچتے ہو اس لوگ کب پہچانیں گے فاجر کا ذکر اس چیز کے ساتھ کرو اس میں موجود ہو تاکہ لوگ اس سے پرہیز کریں ۔(سنن الکبری ، للبیہقی ،کتاب الشہادت جلد 10 صفحہ 354)

  حضور صدرِ الشریعہ مفتی محمد امجد علی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نماز پڑھتا ہے اور روزے رکھتا ہے مگر اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمانوں کو ضرر پہنچاتا ہے اس کی اس ایذا رسانی کو لوگوں  کے سامنے بیان کرنا غیبت نہیں، کیونکہ اس ذکر کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اس کی اس حرکت سے واقف ہو جائیں اور اس سے بچتے رہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کی نماز اور روزے سے دھوکا کھا جائیں اور مصیبت میں مبتلا ہو جائیں حدیث میں ارشاد فرمایا کہ ’’کیا تم فاجر کے ذکر سے ڈرتے ہو جو خرابی کی بات اس میں ہے بیان کر دو تاکہ لوگ اس سے پرہیز کریں اور بچیں۔(بہار شریعت باب خطر و اباحت حصہ شانز دھم )واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب 
کتبہ 
محمد عمران قادری تنویری عفی عنہ

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only