جمعرات، 2 جنوری، 2025

(کیا لقمہ ملنے پر سجدہ سہو واجب ہوجاتاہے؟)

 (کیا لقمہ ملنے پر سجدہ سہو واجب ہوجاتاہے؟)

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓ کرام و مفتیان شرع متین مندرجہ ذیل مسئلے کے بارے میں کہ زید نے سورہ فیل پڑھنا شروع کیا پہلی آیت مکمل درست پڑھی اور دوسری آیت میں بھول گیا پھر پہلی مرتبہ ایک مقتدی نے لقمہ دیا امام نے مقتدی کا لقمہ لیتے ہوۓ پڑھنا شروع کیا پھر اسی آیت میں بھول گیا پھر دوسرے مقتدی نے لقمہ دیا پھر پڑھا پھر بھول گیا پھر تیسری میں کئی مقتدیوں نے لقمہ دینا شروع کر دیا لقمہ دیا تو امام نے تیسری میں مؤذن کا لقمہ لیتے ہوۓ پڑھا اور  درست کر لیا اس طریقے سے پوری سورت پڑھ لی غور طلب یہ ہے کہ کیا امام  کا مقتدی کے تیسری مرتبہ لقمہ لینے سے امام پر سجدہ سہو واجب ہے ؟اور اگر سجدہ سہو نہیں کیا تو کیا نماز دوبارہ پڑھنا ہوگا  جبکہ انھوں نے درست کر لیا اور ان مقتدیوں کا کیا حکم ہوگا جن کا امام نے لقمہ نہیں لیا قرآن و حدیث کی روشنی مدلل و مفصل جواب عنایت فرمائیں 

وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
الجواب بعون الملک الوھاب
 
صورت مسئولہ میں سب کی نماز صحیح و درست ہو گئی ، سجدہ سہو بھی واجب نہیں ، جبکہ امام بھولنے کی صورت میں تین بار سبحان اللہ کہنے کے برابر خاموش نہ رہا ہو.

تفصیل اس مسئلہ کی یہ ہے کہ جب زید سورہ فیل کی دوسری آیت بھول گیا اور لقمہ سے بھی یاد نہیں آرہی تھی تو زید کے لئے حکم یہ تھا کہ زید آگے کی کوئی آیت یا آگے کی کوئی سورت شروع کر دیتا کیوں کہ امام کا بے وجہ مقتدیوں کا لقمہ دینے پر مجبور کرنا اور بار بار اسی آیت کو صحیح پرھنے کی کوشش کرنا گویا کہ مقتدی حضرات کو پریشان کرنا ہے جو کہ موجب کراہت ہے ، 
لیکن اگر زید نے  آگے کی آیت یا سورت نہیں پڑھی چند لقمے ملنے کے بعد آیت صحیح پڑھی تو بھی نماز ہوگئی لیکن مکروہ ہوئی ، 
رہی بات سجدہ سہو کی تو امام کو نماز میں خواہ تین مرتبہ لقمہ دیا جائے یا پھر تیس مرتبہ بہر صورت سجدہ سہو واجب نہیں ، کیونکہ کتب فقہیہ کے جزئیات سے ثابت ہے کہ ترک واجب موجب سجدہ سہو ہے اور مذکورہ صورت میں کسی واجب کا ترک لازم نہیں آیا ،
لہذا سجدہ سہو واجب نہیں ہے ۔
امام کا مقتدیوں کو لقمہ دینے پر مجبور کرنے کے متعلق خاتم المحققین علامہ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں ۔
""ویکرہ ان یفتح من ساعتہ کما یکرہ للامام ان یلجئہ الیہ بل ینتقل الی آیۃ اخری لا یلزم من وصلھا ما یفسد الصلاۃ او الی سورۃ اخری او یرکع اذا قرا قدر الفرض ورجح قدر الواجب لشدۃ لتاکدہ ""
((رد المحتار جلد دوم ، کتاب الصلاۃ باب ما یفسد الصلاۃ ، مطلب المواضع التی لا یجب فیھا الخ ، ص 462 ، مطبوعہ دار المعرفہ بیروت لبنان ))
ترجمہ ۔
مقتدی کے لئے امام کو فورا لقمہ دینا مکروہ ہے جیسے کہ امام کا مقتدیوں کو لقمہ دینے پر مجبور کرنا مکروہ ہے بلکہ امام کو چاہیے کہ وہ ( بھولنے کی صورت میں) دوسری آیت کی جانب منتقل ہو جائے جب کہ اس دوسری آیت کے ملانے سے نماز فاسد نہ ہوتی ہو ، یا پھر وہ کسی دوسری سورت کی جانب منتقل ہو جائے ، یا پھر وہ اگر قرآت کی فرض مقدار پڑھ چکا ہے تو رکوع کر دے، لیکن ( رکوع کرنے کی صورت میں قرآت کی فرض مقدار کے بجائے) تاکید کی زیادتی کی وجہ سے واجب کو مقدار کو ترجیح حاصل ہے .
ترک موجب سجدہ سہو ہے اس حکم کو کثیر فقہاء نے تحریر فرمایا ہے جیسا کہ ملا نظام الدین ہندی تحریر فرماتے ہیں ۔
""لا یجب السجود الا بترک واجب ""
(فتاویٰ ہندیہ جلد اول ، الباب الثانی عشر فی سجود السھو ، ص 139، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان)
ترجمہ ۔
سجدہ سہو کسی واجب کے ہی چھوٹنے سے واجب ہوتا ہے ۔
رہی بات ان مقتدیوں کی جن کا امام نے لقمہ نہیں لیا تو ان سب کی نماز بھی درست ہے ، کیونکہ لقمہ دینے کے متعلق احادیث کریمہ اقوال فقہاء مطلقا وارد ہوئے ہیں، ہر ایک مقتدی کو لقمہ دینے کا اختیار ہے ، لہذا ان سب نے اپنے امام کو لقمہ دے کر حکم شرع پر عمل کیا اگر چہ امام نے سب کا لقمہ نہ لے کر کسی ایک کا لقمہ لیا ہو،
مذکورہ بالا صورت میں کراہت کے ساتھ سب کی نماز صحیح و درست ہے سجدہ سہو بھی واجب نہیں ۔
واللہ تعالیٰ اعلم باالصواب ۔
کتبہ ۔ محمد ایاز حسین تسلیمی بہیڑوی ۔
ساکن۔ محلہ ٹانڈہ بہیڑی ضلع بریلی شریف ۔
مؤرخہ ۔ 2024.  12.   30

ایک تبصرہ شائع کریں

Whatsapp Button works on Mobile Device only