(اجمیر شریف میں بال اتارنے کی منت مانی توکیاکرے؟)
السلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماۓدین ومفتیان شرع متین اس مسئلے میں کہ زید نے منت مانی تھی کہ بچہ پیدا ہوگا تو اس کے بال اجمیر شریف اناساغر میں اتارےگا الحمدللہ بچہ پیدا ہوا اور تقریباً 7 مہینے ہو چکا ہے لیکن بچہ فی الحال بیمار ہے اور زید کے پاس اتنا روپیہ بھی نہیں کہ وہاں جاکر منت پور کر سکے تو کیا اس صورت میں بچے کے بال گھر پر اتار سکتے ہیں،یا وہاں جاکر اتارنا ضروری ہے؟ شریعت کا اس بارے میں کیا حکم ہے جواب عنایت فرمائیے!
المستفتی: محمد عرفان پٹھان داہود گجرات
وعلیکم السلام ورحمۃاللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون ملک الوھاب
واضح رہے کہ جب کوئی بچہ پیدا ہو تو اسے نہلا کر کسی بزرگ کے آستانے پر لے جانا درست اور باعث خیر و برکت ہے،لیکن کسی آستانے یا خاص جگہ بال اتارنے کی منت ماننا یا خاص اسی جگہ بال اتارنے کو ضروری سمجھنا یہ درست نہیں،
لھذا صورت مذکورہ میں اجمیر شریف جاکر اناساغر پر بال اتارنا واجب نہیں بلکہ گھر ہی پر بال اتار لیے جائیں خصوصاً جب بچہ بیمار ہو اور وسائل بھی میسر نہ ہوں۔
اور یہ مسئلہ اچھی طرح یاد رہے کہ اس عرفی منت کا پورا کرنا بہتر اور مستحب ہے جو شرعاً معتبر ہو، اورجو شرعی طور پر غیر درست ہو اس کا پورا کرنا جائز نہیں،لھذا آئندہ ایسی منت ماننے سے پرہیز کریں،ہاں البتہ شرعی منت جو امر مباح کے لیے ہواسے ادا کرنا واجب ہے۔
تفصیلی دلائل ملاحظہ فرمائیں
حضرت علامہ امام شیخ زين الدين بن ابراہيم بن محمد المعروف بابن نُجَيْم حنفی (المتوفٰی٩٧٠ھ) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"وأن يكون ذلك الواجب عبادة مقصودة وأن لا يكون واجبا عليه قبل النذر"یعنی: ایسی منت کا پورا کرنا واجب ہے جس کا تعلق ایسی عبادت مقصودہ سے ہو جو نذر سے پہلے اس پر واجب نہ ہو۔(البحرالرائق ج٤ ص ٤٩٨)
حضرت علامہ امام علاؤالدین محمد بن علی حصکفی (المتوفٰی ١٠شوال ١٠٨٨ھ) علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:“(ولم يلزم) الناذر (ما ليس من جنسه فرض كعيادة مريض۔الخ)یعنی: اگر منت ماننے والے نے ایسی منت مانی جو واجب کی جنس سے نہ ہو تو اسے ادا کرنا لازم نہیں، جیسے مریض کے عیادت کرنے کی منت ماننا الخ. ( الدرالمختار شرح تنویر الابصار، ص ٢٨٤ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ).
اور یہ بھی معلوم ہو کہ منت خواہ شرعی ہو یا عرفی اس کی ادا کے لیے خاص جگہ یا وقت کا تعین کرنا لازم نہیں۔چنانچہ البحرالرائق میں "َ(ومن نذر نذرا مطلقا أو معلقا بشرط و وجد وفى به)"کے تحت ہے "واراد لقوله وفى انه يلزمه الوفاء باصل القربة التى التزمها لا بكل وصف التزمه لما قدمناه انه لو عين درهما او فقيرا او مكانًا للتصدق أو للصلوة فان التعيين ليس بلازم"یعنی: ( اور جس شخص نے کوئی مطلق نذر مانی یا کسی شرط کے ساتھ معلق کرکے منت مانی اور وہ شرط پائی گئ تو اسے پورا کرے) اس کے تحت ہے کہ مصنف نے اپنے قول وفا سے مراد لیا کہ اس اصل قربت کا پورا کرنا لازم ہے جسے اپنے ذمہ لازم کیا نہ کہ ان تمام اوصاف کا جس کا اس نے التزام کیا اس وجہ سے جو ہم نے پہلے بیان کیا کہ اگر کسی نے صدقہ کے لیے کوئی درہم یا کسی فقیر کو معین کر دیا یا نماز کے لیے کوئی جگہ معین کر دی، تو باب نذر میں معین کرنا لازم نہیں،(یعنی خاص اس درہم یا خاص اس فقیر کو تصدق کرنا یا خاص اس جگہ پر نماز ادا کرنا ضروری نہیں)(البحرالرائق کتاب الایمان ج٤ص٤٩٦، ٤٩٧، ٤٩٨)
سیدی سرکار اعلی حضرت مجدد اعظم علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں:”بچہ پیدا ہوتے ہی نہلا دھلا کرمزارات اولیاء کرام پر حاضر کیا جاۓ اس میں برکت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے زمانہ میں پیدا ہوۓ بچے کوحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر کرتے تھے اور آپ کے بعد آپ کے روضئہ انور پر لے جاتے رہے ۔ لیکن اگر بال اتارنے سے مقصود وہ ہے جس کا عقیقہ کے دن حکم ہے تو یہ ایک ناقص چیز کا ازالہ ہے، اسے مزارات طیبہ پر لے جا کر کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ بال گھر ہی پر دور کر لئے جائیں۔ (فتاوی افریقہ ص ۸۳)
منت ہمیشہ اچھے کام کی ماننا چاہیے،چنانچہ صدرالشریعہ حضرت مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: " منت مانا کرو تو نیک کام ، نماز ، روزہ ، خیرات اور درود شریف کلمہ شریف ، قرآن شریف پڑھنے ، فقیروں کو کھانا دینے ۔ کپڑا پہنانے وغیرہ کی منت مانو۔(بہارشریعت ح٩ ص نمبر ٣٥)واللہ تعالٰی و رسولہ الاعلٰی اعلم بالصواب عزوجل و صلی اللہ تعالٰی علیہ و آلہ و سلم
کتبہ
سید محمد نذیرالہاشمی سہروردی
شاہی دارالقضا و امین آستانئہ عالیہ غوثیہ سہروردیہ داہود شریف الہند
بتاریخ٢٩جمادی الآخر١٤٤٦ھ
بمطابق١جنوری٢٠٢٥ء
بروز چہار شنبہ(بدھ)
ایک تبصرہ شائع کریں