(حمل کی حالت میں طلاق دینا کیسا ہے؟)
الاستفتاء: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ حمل کی حالت میں طلاق دینا کیسا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:محمد یوسف رضا، انڈیا
سائل:محمد یوسف رضا، انڈیا
باسمه تعالیٰ وتقدس الجواب: اگر طلاق کی شرعی ضرورت ہو تو حمل کی حالت میں بھی طلاق دینا جائز ہے۔ چنانچہ علّامہ شمس الدین محمد بن عبد اللہ تمرتاشی حنفی متوفی ۱۰۰۴ھ اور علّامہ علاء الدین حصکفی حنفی متوفی ۱۰۸۸ھ لکھتے ہیں: (وحل طلاقهن) أي الآيسة والصغيرة والحامل (عقب وطء) لأن الكراهة فيمن تحيض لتوهم الحبل وهو مفقود هنا۔(تنویر الأبصار وشرحہ الدر المختار مع شرحہ رد المحتار، ۳/۲۳۲)
یعنی، سن ایاس(یعنی ایسی عمر جس میں حیض آنا بند ہوجائے) والی عورت، نابالغہ اور حاملہ عورت کو جماع کے بعد بھی طلاق دینا حلال ہے کیونکہ مکروہ حیض والی عورت کو طہر میں جماع کے بعد طلاق دینا اس لئے تھا کہ وہاں حمل ٹھہرنے کا احتمال ہوتا ہے اور یہاں یہ احتمال نہیں ہے۔واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
کتبہ:
محمد اُسامہ قادری
پاکستان،کراچی
پیر،۱۹/رجب، ۱۴۴۶ھ۔۱۹/جنوری، ۲۰۲۵م
ایک تبصرہ شائع کریں