(مزار کے سامنے نماز پڑھناکیساہے؟)
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
کیا فرماتے علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں ، کہ زید اس بار عرس زندہ شاہ مدار مکنپور شریف میں حاضر ہوا وہاں زید نے دیکھا کہ جلسہ کے بعد فجر کے وقت جب مدار پاک کا دربار کھلا تو سارے لوگ حاضر ہوئے اور فجر کی اذان کے بعد سارے لوگوں نے وہیں روضۂ مبارکہ کے قریب نماز ادا کی ، بعض پیچھے جو لوگ تھے انہوں نے بھی قبلہ کی جانب نماز ادا کی لیکن ان کے سامنے مدار پاک کی قبر انور تھی تو شریعت مطہرہ کی روشنی میں نماز کا کیا حکم ہے ؟؟
کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ قبر کے سامنے نماز ادا کرنا مکروہ تحریمی ہوتی ہےنیز یہ بھی ارشاد فرمادیں کہ کیا صالحین کے قرب و جوار میں نماز ادا کرنا حصول برکت کا ذریعہ ہے ؟بہر حال شرح و بسط ، تفصیل و توضیح کے ساتھ کتاب و سنت فقہ و فتاوی کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
السائل ۔. محمد ناظم عطاری ۔ساکن ۔ محلہ گودام شیری چوک بہیڑی ضلع بریلی جی
کیا فرماتے علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں ، کہ زید اس بار عرس زندہ شاہ مدار مکنپور شریف میں حاضر ہوا وہاں زید نے دیکھا کہ جلسہ کے بعد فجر کے وقت جب مدار پاک کا دربار کھلا تو سارے لوگ حاضر ہوئے اور فجر کی اذان کے بعد سارے لوگوں نے وہیں روضۂ مبارکہ کے قریب نماز ادا کی ، بعض پیچھے جو لوگ تھے انہوں نے بھی قبلہ کی جانب نماز ادا کی لیکن ان کے سامنے مدار پاک کی قبر انور تھی تو شریعت مطہرہ کی روشنی میں نماز کا کیا حکم ہے ؟؟
کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ قبر کے سامنے نماز ادا کرنا مکروہ تحریمی ہوتی ہےنیز یہ بھی ارشاد فرمادیں کہ کیا صالحین کے قرب و جوار میں نماز ادا کرنا حصول برکت کا ذریعہ ہے ؟بہر حال شرح و بسط ، تفصیل و توضیح کے ساتھ کتاب و سنت فقہ و فتاوی کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں ۔
السائل ۔. محمد ناظم عطاری ۔ساکن ۔ محلہ گودام شیری چوک بہیڑی ضلع بریلی جی
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔
الجواب بعون الملک الوھاب
کتاب و سنت فقہ و فتاوی کی روشنی میں ایسی جگہ نماز پڑھنا جہاں نمازی اور قبر کے درمیان کوئی بھی چیز جیسے دیوار یا کوئی سترہ وغیرہ حائل نہ ہو ، قبر بلکل سامنے ہو تو فقہاء عظام نے ایسی جگہ نماز پڑھنے کو مکروہ تحریمی ، اور گناہ قرار دیا ہے۔
قبر کے سامنے نماز کے مکروہ تحریمی ہونے کی اسباب و وجوہات فقہاء اسلام نے تحریر فرمائی ہیں ایک بتوں کی عبادت سے مشابہت دوسری یہود و نصاری کی مشابہت .
رہی بات سرکار مدار پاک روضہ کی . تو جو اس بارگاہ میں حاضر ہوا ہے اس نے دیکھا ہے کہ آپکی قبر انور و اطہر کے چاروں جانب دیواریں اور جالی مبارک ہیں ، تو نمازی کے سامنے آپکی قبر انور نہیں ہوتی ، لہذا کراہت تحریمی کی جواسباب و وجوہات تھیں وہ ختم ہو گئیں ، لہذا وجوہات کے منتفی ہونے سے کراہت تحریمی کا حکم بھی منتفی ہو گیا ،لہذا حضور مدار پاک کے روضۂ مبارکہ کے قریب نماز پڑھنا بکا شبہ جائز و درست ہے ۔
اولیاء اللہ کی قبور پور نور کے قرب و جوار میں حصول فیوض و برکات کے لئے نماز ادا کرنا جب کہ نہ قبر کہ تعظیم مقصود ہو نہ صاحب قبر کی، اور نہ قبر کی جانب منہ کرنا مقصود ہو ، اور یہ نیت ہوں کہ صاحب قبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ میری ناقص عبادت کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمالےگا تو اس طرح اولیاء اللہ کی قبور کے پاس نماز ادا کرنا جائز ودرست ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی بارگاہ میں عبادت قبول کا ہونے ذریعہ ہے ، جیسا کہ امام ابن حجر ہیتمی مکی کے بقول امام شافعی امام اعظم کی قبر انور پر برکت حاصل کرنے جایا کرتے تھے ۔امام احمد بن اسمعیل الطحطاوی الحنفی المتوفی 1231ھ فرماتے ہیں ۔
""وتکرہ الصلاۃ فی المقبرۃ لانہ تشبہ بالیھود والنصاری ، قال الحلبی لانہ الکراھۃ معللۃ بالتشبہ ، لا تکرہ الصلاۃ الی جھۃ القبر الا اذا کان بین یدیہ"(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح کتاب الصلاۃ باب مکروھات الصلاۃ ، ص 356. 357 ، مطبوعہ دار الکتاب دیوبند)
ترجمہ ۔قبرستان میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، کیونکہ اس میں یہودی اور نصرانیوں سے مشابہت پائی جا رہی ہے ، امام حلبی نے فرمایا ہے کہ نماز کے مکروہ (تحریمی) ہونے کی علت مشابہت ہے ، قبر کی جانب نماز پڑھنا اس وقت مکروہ ہے جب کہ قبر اس کے سامنے ہو ۔
بہار شریعت میں فتاوی ہندیہ اور غنیۃ المستملی کے حوالہ سے تحریر ہے ۔ ''مقبرہ میں جو جگہ نماز کے لئے مقرر ہو اور اس میں قبر نہ ہو تو وہاں نماز میں حرج نہیں ، کراہت اس وقت ہے کہ قبر سامنے ہو اور مصلّی اور قبر کے درمیان کوئی شے سُترہ کی قدر حائل نہ ہو ورنہ اگر قبر دہنے بائیں یا پیچھے ہو یا بقدر سُترہ کوئی چیز حائل ہو ، تو کچھ بھی کراہت نہیں" (بہارِ شریعت ، جلد اول ، حصہ سوم، مسئلہ نمبر 80؛صفحہ 637 ، مطبوعہ: المکتبۃ المدینہ دعوت اسلامی)
نیک صالح بندہ کی قبر انور کے قریب نماز پڑھنا موجب برکت یے جیسا کہ مشکوۃ کی ایک حدیث کی شرح کرتے ہوئے علامہ عبد الحق محدث دہلوی فرماتے ہیں ۔""فاما اذا وجدبقربھا موضع بنی للصلوٰۃ ،اومکانا یسلم المصلی فیہ عن التوجہ الی القبور"وفی شرح الشیخ حیث قال : وخرج بذلك اتخاذ مسجد بجواز نبی اوصالح ،وللصلاۃ عند قبرہ ،لالتعظیمہ والتوجہ نحوہ؛ بل لحصول مدد منہ ،حتی تکمل عبادتہ ببرکۃ مجاورتہ لتلك الروح الطاھرۃ ،فلاحرج فی ذلک ،لماوردان قبر اسمٰعیل علیہ الصلاۃ والسلام فی الحجر تحت المیزاب ،وان فی الحطیم ،بین الحجر الاسود وزمزم ،قبر سبعین نبیا ،ولم ینہ احد عن الصلاۃ فیہ اھ وکلام الشارحین متطابق فے ذلك "(لمعات التنقیح شرحِ مشکوۃ المصابیح جلد دوم کتاب الصلاۃ، باب المساجد و مواضع الصلوۃ ، حدیث نمبر 712 ، ص، 468. 469، مطبوعہ دار النوادر)
ترجمہ ۔ اگر قبرستان کے قریب کوئی ایسی جگہ ہو جو نماز کے لئے ہی بنائی گئی ہو یا ایسی جگہ ہوکہ وہاں نماز پڑھنے والے کا منہ قبروں کی طرف نہ ہوتا ہو (تو ایسی جگہوں پر نماز پڑھنا جائز ودرست ہے ) ،
چنانچہ شیخ نے کہا ہے کہ اس سے وہ صورت خارج ہوگئی جس میں کسی نبی یا صالح کے پاس اس لئے مسجد بنائی جائے کہ اس کی قبر کے پاس نماز پڑھی جائے ، لیکن مقصود قبر کی تعظیم اور اس کی طرف منہ کرنا نہ ہو بلکہ غرض یہ ہوکہ صاحبِ قبر سے مدد حاصل کی جائے تاکہ اس پاك روح کے قُرب کی وجہ سے عبادت مکمل ہوجائے ، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ روایات میں آیا ہے کہ اسمٰعیل علیہ السلام کی قبر حطیم میں میزاب رحمت کے نیچے ہے اور حطیم کے پاس حجر اسود اور زمزم کے درمیان ستّر انبیاء کی قبریں ہیں ، اس کے باوجود وہاں نماز پڑھنے سے کسی نے منع نہیں کیا اھ اس مسئلہ میں تمام شارحین نے ایسی ہی گفتگو کی ہے۔
خلاصہ ۔ ۔۔مدار پاک روضۂ مبارک کے قرب و جوار میں نماز پڑھنا جائز و درست ہے ۔واللہ تعالیٰ ورسولہ اعلم باالصواب ۔
کتبہ ۔ العبد الضعیف الحقیر المحتاج الی اللہ القوی القدیر
محمد ایاز حسین تسلیمی بہیڑوی ۔
ساکن ۔ محلہ ٹانڈہ متصل مسجد مدار اعظم بہیڑی ضلع بریلی شریف۔
مؤرخہ ۔2025......1.....2
ایک تبصرہ شائع کریں